شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس

منی جنرل الیکشن … بی جے پی کا ہندوتوا ایجنڈہ
رام مندر … آرڈیننس کی تیاری

رشیدالدین
ملک میں منی جنرل الیکشن کی انتخابی مہم عروج پر ہے۔ چھتیس گڑھ میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی مکمل ہوئی جس میں ماوسٹوں کی دھمکی کے باوجود عوام نے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی جمہوریت پر بھروسہ جتایا۔ مدھیہ پردیش اور میزورم میں 28 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ تلنگانہ اور راجستھان میں 7 ڈسمبر کو ٹی آر ایس اور بی جے پی حکومتوں کی قسمت ووٹنگ مشینوں میں محفوظ ہوجائے گی۔ لوک سبھا کے عام چناؤ سے قبل پانچ ریاستوں کے نتائج قومی رجحان کی عکاسی کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس نے ساری طاقت جھونک دی ہے۔ بی جے پی کیلئے جس طرح تین ریاستوں میں حکومت کو بچانا اہمیت رکھتا ہے ، اسی طرح تلنگانہ میں کے سی آر کا امیج داؤ پر ہے۔ اہم ریاستوں میں کامیابی کے ذریعہ کانگریس دہلی کی سمت پیشقدمی کرنا چاہتی ہے۔ تینوں پارٹیوں کیلئے یہ صورتحال کرو یا مرو کی طرح ہے۔ دو پارٹیوں کو حکومت بچانا ہے تو ایک پارٹی کو دونوں سے اقتدار چھیننا ہے۔ 2019 ء کے عام انتخابات کے پیش نظر سیاسی مبصرین نے کانگریس کی صورتحال کو Now or Never سے تعبیر کیا ہے۔ کانگریس پارٹی ملک میں سمٹ کر محض دو دو ریاستوں تک محدود ہوچکی ہے اور دہلی کی کرسی کا راستہ جاریہ اسمبلی نتائج سے طئے ہوگا۔ نریندر مودی حکومت کی چار سالہ ناکامیوں کے باوجود اگر کانگریس کا مظاہرہ بہتر نہیں ہوا تو قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد اور بڑی ریاستوں میں سیکولر محاذ کی تشکیل کو دھکا لگ سکتا ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے سروے میں متضاد دعوے کئے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے قومی میڈیا سیاسی پارٹیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ مودی نواز ٹی وی چیانلس دن رات مودی بھکتی میں غرق بی جے پی حکومتوں کو بچانے کا جیسے ٹھیکہ لے چکے ہیں۔ ابتدائی دور کی مہم کے بعد میڈیا کو یہ ذمہ داری دے دی گئی ۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کا موقف کافی مستحکم اور مدھیہ پردیش میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ انتخابی مہم چھوڑ کر نریندر مودی جس طرح بیرونی دورہ پر روانہ ہوئے ، یہ اظہار خود اعتمادی ہے یا احساس کمتری کو برتری میں بدلنے کی کوشش ۔ جس طرح راہول گاندھی مہم میں مصروف ہیں، وہیں مودی اور امیت شاہ نے مقامی قیادت کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔ بی جے پی کے پاس ریاستوں میں کوئی کارنامہ نہیں لہذا یوگی ادتیہ ناتھ جیسے قائدین کے ذریعہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ چھیڑ دیا گیا۔ مسلم یادگاروں کے ناموں کی تبدیلی ، رام مندر کے مجسمہ کی تعمیر اور ایودھیا میں مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کے مطالبہ کو خوب ہوا دی جارہی ہے۔ ایودھیا تنازعہ کی عاجلانہ سماعت کیلئے سپریم کورٹ پر دباؤ بنایا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ دستور اور قانون کی پاسداری اور بالادستی کا حلف لینے والے مرکزی وزراء نے بھی سپریم کورٹ کے خلاف طنزیہ ریمارکس کئے ہیں۔ منصوبہ بند انداز میں رام مندر کے نام پر سنگھ پریوار کی تمام تنظیموں کو متحرک کردیا گیا۔ مقصد صرف یہی ہے کہ تین ریاستوں میں حکومت کی ناکامیوں کو بھلاکر عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا دیا جائے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کا شمار فرقہ وارانہ حساس ریاستوں میں ہوتا ہے۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ منافرت پیدا کرنے کی کوششوں پر وزیراعظم کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر ٹوئیٹ کرنے والے اور من کی بات قوم کو سنانے والے نریندر مودی نے گزشتہ چار برسوں میں حساس مسائل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ عدم رواداری کے جذبہ نے کئی جہد کاروں کی جان لے لی۔ گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن مودی چپ رہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا لیکن سنگھ پریوار کا ساتھ رہا جبکہ وکاس بی جے پی سے قربت رکھنے والے صنعتی گھرانوں کا ہوا۔ عوام کو اب احساس ہونے لگا ہے کہ اگنی کو ساکشی مان کر جس کے ساتھ 7 پھیرے لئے ، اس جیون ساتھی کو در در کی ٹھوکر کھانے پر مجبور کرنے والے سے کیا توقع کی جائے گی ۔ رام مندر مسئلہ پر سنگھ پریوار اور حکومت میں شامل ان کے ایجنٹ سپریم کورٹ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں لیکن نریندر مودی شائد یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ 2019 ء کا چناوی ایجنڈہ تیار ہورہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک اکثریتی طبقہ کی آستھا کے مطابق چلے گا یا پھر دستور اور قانون کے مطابق ؟ بالادستی اور حکمرانی دستور اور قانون کی ہوگی یا آستھا کے نام پر نفرت پھیلانے والی طاقتوں کی ؟

عام انتخابات کے ایجنڈہ کو رام مندر سے جوڑنے کیلئے یوگی ادتیہ ناتھ نے کانگریس کو مندر کی تعمیر میں اہم رکاوٹ قرار دیا۔ یوگی کا یہ بیان اگرچہ چھتیس گڑھ کی انتخابی مہم کے دوران منظر عام پر آیا لیکن اترپردیش میں سنگھ پریوار کے تمام قائدین یہی بولی بول رہے ہیں۔ وہ کانگریس کو نشانہ بناکر رائے دہندوں کو اپنے حق میں کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ نے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل سے زیادہ نفرت کے پرچار کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اترپردیش میں عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پر قابو پایا جائے گا لیکن یہ صورتحال مزید ابتر ہوچکی ہے۔ ناکامیوں کو چھپانے کیلئے یوگی نے مذہبی ایجنڈہ کو اختیار کرلیا اور رام کا مجسمہ نصب کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیا رکھ دیا گیا۔ یہ دونوں اقدامات مندر کی تعمیر کے سلسلہ میں اہم پیشرفت ہیں۔ کیا یوگی ادتیہ ناتھ اپنے سیاسی گرو کی اجازت کے بغیر اس طرح کے قدم اٹھاسکتے ہیں ؟ اب تو وشوا ہندو پریشد اور شیو سینا نے 25 نومبر کو ایودھیا میں ریالی منظم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دونوں کی علحدہ ریالیاں ہوں گی جس کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ ریالیوں کی تیاری سے ایودھیا کے مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں اور وہ نقل مکانی کی تیاری کر رہے ہیں۔ عام انتخابات سے چند ماہ قبل اچانک رام مندر کی یاد سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی 1990 ء کی طرح دوبارہ رام مندر تحریک پر چناؤ لڑے گی۔ مندر کی تعمیر کیلئے پتھروں کو تراشنے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ 1992 ء میں جس طرح اترپردیش میں حالات پیدا کئے گئے اور پھر بابری مسجد شہید کی گئی ۔ ٹھیک اسی طرح کے حالات دوبارہ پیدا کرتے ہوئے مندر کی تعمیر کا آغاز ہوسکتا ہے۔ عدالت کی جانب سے مقدمہ کی سماعت میں تاخیر کا بہانہ بناکر آرڈیننس جاری کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کیا گیا۔ ملک میں سیکولر طاقتیں نہ صرف بکھر چکی ہیں بلکہ ان پر بے حسی طاری ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی قیادت میں اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ لہذا مرکزی حکومت نے کسی مزاحمت کے بغیر طلاق ثلاثہ کا آرڈیننس جاری کردیا۔ اسی بے حسی کا فائدہ اٹھاکر عجب نہیں کہ رام مندر کی تعمیر کیلئے آرڈیننس جاری کردیا جائے۔ آرڈیننس کی اجرائی کی صورت میں کسی بھی گوشہ سے مزاحمت کے امکانات اس لئے بھی کم دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ سیکولر طاقتوں کے اندر سنگھ پریوار کے عناصر موجود ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں مندر کی تعمیر کے آرڈیننس کو کارنامہ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کا سیشن 11 ڈسمبر سے شروع ہورہا ہے جس میں طلاق ثلاثہ بل کو راجیہ سبھا میں منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی ۔ اجلاس ایسے وقت شروع ہوگا جس دن پانچ ریاستوں کے نتائج منظر عام پر آئیں گے۔ لہذا پارلیمنٹ سیشن پر انتخابی نتائج کے اثرات دکھائی دیں گے۔ بی جے پی حکومت پارلیمنٹ میں رام مندر کے لئے قانون سازی کی کوشش اس لئے نہیں کرے گی تاکہ انتخابی مہم میں کانگریس کو مورد الزام ٹھہرانے کا موقع برقرار رہے۔ پانچ ریاستوں میں بی جے پی کے ناقص مظاہرے کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند رہیں گے اور یہ موقع اپوزیشن اتحاد کے استحکام میں مددگار ثابت ہوگا۔ آندھراپر دیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو جو اپوزیشن جماعتوں سے بہتر روابط رکھتے ہیں، وہ راہول گاندھی کے ساتھ مل کر بی جے پی کا متبادل تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو آئندہ الیکشن نریندر مودی کیلئے برے دنوں کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ مظفر وارثی نے کیا خوب کہا ہے ؎
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے