سیڈیشن معاملہ۔ عدالت نے نہیں یونیورسٹی کی اعلی سطحی کمیٹی کو عمر خالد ‘ کنہیا اور انیر بان قصور وار دیکھائی دے رہے ہیں

اٹھ ماہ قبل عدالت نے اسی سزاء کو بازو کردیاتھا ‘ مگر دوبارہ ایچ ایل ای سی کی تحقیقات کے حوالے سے مبینہ طور پر مخالف ملک نعرے لگانے والے طلبہ کو سزاسنائی گئی ہے
نئی دہلی۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی طلبہ پر 9فبروری 2016میں کیمپس کے اندر مخالف ملک نعرے لگانے کے ضمن میں سزاء کو دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھ ماہ قبل نظر انداز کردئے جانے کے بعد یونیورسٹی کی اعلی سطحی کمیٹی نے جمعرات کے روزعمر خالد ‘ کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف سزاء مقرر کی ہے۔

اسٹوڈنٹس کو یونیورسٹی نے لیٹر روانہ کرتے ہوئے ان سے کہاکہ ان کے لئے سزاء مقرر کی گئی ہے‘ طلبہ نے اس فیصلے کو ’’ سیاسی طور پر حوصلہ افزائی‘‘ کے نتیجے میں لیاگیا فیصلہ قراردیا ہے۔ اس پر تبصرے کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ دستیاب نہیں تھا ‘ فون اور مسیج کے ذریعہ بھی یونیورسٹی کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں ملا۔جولائی4کے روز جاری کردہ لیٹر کے مطابق خالد کو اگلے سمیسٹر ممنوع قراردیاگیا ہے۔

سابق جے این یو اسٹوڈنٹ یونین صدر کمار پر دس ہزار روپئے کا جرمانہ عائد کیاگیا ہے۔دیگر طلبہ کے بشمول جے این یو ایس یوکے جن کارکنوں پر جرمانہ عائد کیاگیا ہے ان میں اشوتوش کمار‘ اننت‘ چنٹو کماری کے نام شامل ہیں۔طلبہ سے اندر رون دوہفتہ جرمانے کی رقم جمع کرانے کو کہاگیا ہے۔

ہائی کورٹ کے احکامات کے برخلاف مذکورہ یونیورسٹی نے طلبہ سے حلف نامہ کے طور پر ایک لیٹر بھی دیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ وہ کسی بھی دھرنے یا احتجاج میں شامل نہیں ہونگے۔

مذکورہ واقعہ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے مجرم افضل گروو کی پھانسی پر تین سال کی تکمیل کے ضمن میں منعقد کیاگیاتھا۔جس کے بعد ایک تنازع کھڑا ہوگیا تھا ‘ اور اس میں مخالف ملک نعرے لگانے کے الزامات ‘ عمر خالد ‘ کنہیا کمار اور انیر بان بھٹاچاریہ پر لگنے کے بعد ’سیڈیشن‘ کے تحت ان کی گرفتاری عمل میں ائی تھی۔

تینوں کی دائیں بازو ذہنیت کی حامل طلبہ تنظیموں سے وابستگی ہے جو فی الحال ضمانت پر رہا کردئے ۔

اس کے ضمن میں جے این یو نے ایک اعلی سطحی کمیٹی( ایچ ایل ای سی) کا تشکیل عمل میں لائی تاکہ اس بات کی جانچ کی جاسکے کے یونیورسٹی کے قواعد وضوابط کی کہیں خلاف ورزی تو نہیں کی گئی ہے۔ وہیں کمیٹی نے پچھلے سال اس ضمن میں سزائی سنائی تھی ‘ جس پر طلبہ نے ہائی کورٹ کا رخ کیاتھا جہاں پر عدالت نے سزاء کو نظر انداز کردیاتھا۔

عدالت نے اس وقت جے این یو وائس چانسلر سے کہاتھا کہ معاملے کی جانچ کریں اور طلبہ کو اپنی دفاع کا وقت فراہم کریں اور ایچ ایل ای سی کے دستاویزات کی بھی جانچ کی جائے۔خالد نے کہاکہ و ہ’’رپورٹ کو مستر کردے ہیں اور اس کا چیلنج کریں گے‘ وہیں کمار نے کسی تبصرے سے انکار کردیا‘‘۔

عمر خالد نے کہاکہ ’’ اس کے پیچھے سیاسی مقصد ہے۔ یہ تیسری مرتبہ ہے ایک ہی انتظامیہ کی جانب سے ایک ہی کام کے لئے مجھے تیسری مرتبہ سزاء دی گئی ہے‘ او رہر وقت ایک تحقیقاتی کراتے ہیں جس میں قواعد کو پوری طرح نذر انداز کردیاجاتا ہے۔

اور عجیب بات یہ ہے کہ مجھے اگلے سمسٹر کے لئے برطرف کردیا ہے جبکہ اس وقت میں طالب ہی نہیں رہوں گا‘‘۔ وہ اس سمسٹر کے لئے اپنی پی ایچ ڈی تھیسس جمع کرارہے ہیں۔

طلبہ کی حمایت میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے جے این یو ایس یو نے کہاکہ ’’جے این یو اسٹوڈنٹس کو مخالف ملک قراردیتے ہوئے چھیڑ چھاڑ والا ایک ویڈیو سرکیولیٹ کیاگیا تاکہ جے این یو کی شبہہ کوبگاڑ سکیں۔

یہاں تک کے دوسال کا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی دہلی پولیس نے عدالت میں اسٹوڈنٹس کے خلاف کوئی چارج شیٹ پیش نہیں کی۔اے بی وی پی جو اس کیس میں مرکزی شکایت کرد ہ ہے نے کہاکہ’’معمولی سزاء سنائی گئی ہے‘‘