سیریہ بحران ۔امداد کے عوض خواتین کا جنسی استحصا ل کیاجارہا ہے۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مرد کھانے اور لفٹ کی تجارت جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے کررہے ہیں۔
تین سال قبل انتباہ دینے کے باوجود ملک کے جنوب میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کی خبروں کا سلسلہ ہنوزجاری ہے۔یوین ایجنسیزاو رچیارٹیز کا کہنا ہے کہ وہ استحصال کے معاملے کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتے اور وہیں پر ساتھی اداروں کی جانب سے علاقے میں استحصال کی واقعات رونما ہونے کی انہیں اطلاع نہیں ہے۔

امدادی کارکنوں نے بی بی سی سے کہاہے کہ استحصال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ سیریائی عورتیں تقسیم کے مرکز پرجانے سے منع کررہی ہیں کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں جو چیزیں وہ انہیں دے رہے ہیں اس کے عوض عورتیں اپنا جسم انہیں پیش کریں گی۔

ایک کارکن کا دعوی ہے کہ کچھ انسانی فروغ کے ادارے استحصال کے اس کھیل میں اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں کیونکہ سیریہ کے شور ش زدہ علاقوں میں راحت کا سامان پہنچنے کے لئے انہیں مقامی عہدیداروں کی مدد درکار ہے اور بین الاقوامی عاملے کی رسائی ان علاقوں تک نہیں ہوسکتی۔

اقوام متحدہ آبادی فنڈ( یو این ایف پی اے)نے علاقے میں پچھلے سال جنسی تشدد کی بنیاد پر ایک سروے کرایاتھا اور یہ رائے قائم کی ہے کہ سیریہ میں مختلف مقامات پر انسانی ہمدردی کا جنسی فائدہ اٹھایاگیا ہے۔ رپورٹ جس کا عنوان ’’ وائسیس فرم سیریہ 2018‘‘میں کہاگیا ہے کہ ’’ مثال کے طور پر کسی عورت یا لڑکیوں کی مختصر مدت کے لئے عہدیداروں سے شادی یا جزوی وقت کے لئے ’جنسی مدد‘ کے بعد انہیں کھانا فراہم کیاجانا ہے۔

امداد تقسیم کرنے والے خواتین او رعورتوں سے ان کے فون نمبرات پوچھتے ہیں‘ انہیں ان کے گھر چھوڑتے ہیں اور اس کے عوض ’’ کچھ اور چیز مانگتے ہیں‘‘۔ امداد کا سامان گھر پہنچے یا پھر سروسیس کے بدلے ایسے لوگوں کو ان کے ساتھ شب بسری کرنا پر مجبور کرنا‘‘

۔اس میں مزیدکہاگیا ہے کہ ’’ خواتین او رلڑکیاں بناء مرد محافظین کے ‘ جیسے بیوی‘ مطلقہ اسی طرح اندرونی طور پر بے گھر لوگ (ائی ڈی پی یس)کو خاص طور سے جنسی استحصال کے لئے آسان شکار سمجھا جاتا ہے‘‘۔ اسی طرح کے استحصال کی پہلی خبر تین سال قبل ائی تھی ۔

ڈانیال اسپنرس جو امدادی کام انجام دیتے ہیں نے سال2015مارچ میں اس طرح کے الزامات کے متعلق سیریائی خواتین کے گروپ سے سناتھا۔ ان میں کچھ خواتین جنھیں مقامی کونسل کی جانب سے ان علاقوں جیسے دیرا اور قونیترا میں امداد کے بدلے جسمانی ضرورت پورا کرنے کو کہاگیاتھا کے ساتھ اسپنسرس نے ایک فوکس گروپ تشکیل دیاتھا۔

مس اسپنسر نے کہاکہ ’’ پہلے وہ امداد سامان ہاتھوں میں تھامے آتے ہیں اس کے بعد وہ سامان دے کر ان عورتوں کا جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ مجبوری میں ہر بات ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں کچھ پر زیادتی کی جاتی ہے او رکچھ خوداری کے سبب ایسے کچھ بھی نہیں کرتے نتیجے میں وہ بھوکے مر جاتے ہیں۔

روز مرہ استعمال ہونے والی چیزیں جیسے صابن ‘ تیل ‘ کھانے پینے کا سامان حاصل کرنے کے دوران عورتوں اور لڑکیوں کو تحفظ ضروری ہے۔یہ بات عام ہوگئی ہے کہ اگر کہیں پر کچھ تقسیم ہورہا ہے اگر کوئی عورت یالڑکی وہاں پر سامان حاصل کرنے کے لئے تو انہیں جنسی تسکین کا سامان مہیا کرنا پڑیگا‘‘۔سال2015جونم میں انٹرنیشنل رسکیو کمیٹی( آئی آر سی ) کے مطابق ڈیرا اور قنتیرا میں190عورتیں اور لڑکیاں متاثر ہوئی ہے۔

رپورٹ میں چالیس فیصد جنسی تشدد کے واقعات انسانی امدادی تنظیموں کی جانب سے تقسیم کئے جانے والے امدادی سامان کے مرکز پر ہوئے ہیں۔اسپنرس نے سیریا میں خواتین او رلڑکیوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی تفصیل سے زمینی حقیقت پیش کی۔