سپریم کورٹ کے ججو ں کی تشویش۔

سپریم کورٹ کے چار ججوں نے عدالت کے کام کرنے کے طور طریقوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے نظام میں گرواٹ کے لئے براہ راست چیف جسٹس کو ذمہ دار ٹھرایاہے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ جب ہندوستان کے سپریم کورٹ کے چار ججوں نے میڈیاکانفرنس طلب کرکے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے سلسلے میں واقف کروایا۔

ان ججوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کو خط لکھا ہے ۔ جن لوگوں نے یہ خط لکھا ہے ان میں سینئر جج جسٹس چلمیشوار ‘ جسٹس رنجن گوگوئی‘ جسٹس مدن بی لوکراور جسٹس کورین جوزف شامل ہیں۔ان لوگوں نے چیف جسٹس پر الزام لگایا ہے کہ وہ من مانی طریقے سے عدالت کے بنچ تشکیل دے رہے ہیں اور ان میں’ پک ان چوز‘ کرکے سماعت کے لئے مقدمہ الاٹ کرتے ہیں۔

ان لوگوں کا کہناتھا کہ جوطریقے اور روایتیں موجود ہیں ‘ ان کے خلاف ورزی کرکے ایسا کرنے سے عدالت کااعتماد اور اس کی شبیہ خراب ہوتی ہے‘ جس سے ملک میں خراب اثر پیدا ہوں گے اور اسے روکا جانا چاہئے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہناتھا کہ اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لیاجانا چاہئے۔جمعہ کی صبح جب سپریم کورٹ کے چاروں ججوں نے میڈیاکانفرنس کی توپورے ملک میں ایک طرح کا واویلا شروع ہوگیا۔ کانگریس نے اس معاملے پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور اس بات کا اندیشہ بھی ظاہر کیاکہ اس طرح ججوں کی باتوں سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ عدالتی نظام میں مرکزی حکومت مداخلت کررہی ہے ۔

جس طرح سے حال کے دونوں میں سپریم کورٹ کو این ڈی اے حکومت کے اقتدار میںآنے کے بعد سیاسی طور پر متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کی کئی مثالین مل جائیں گی اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایک سازش کے تحت اس طرح کی کاروائی کی جارہی ہے ۔ کسی ایک فرقے یاطبقے کو نشانہ بناکر معاملے کو بلاوجہ سپریم کورٹ میں گھسیٹا جاتا ہے اور یہ باورکرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکوتم عدالت کے فیصلوں کو تسلیم کرتی ہے‘ حالانکہ جان بوجھ کر مذہبی معاملات کو عدالت میں لے جایاجارہا ہے۔

ابھی مثال سامنے کی ہے کہ تین طلاق کے معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جایاگیا اور عدالت نے ایک نشست میں تین طلاق کو مستر د کردیا اور اس کے بعد مرکزی حکوتم نے جلد بازی کرتے ہوئے تین طلاق کو قابل جرم بتاتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کردیا‘ حالانکہ اس بل کو پیشکرنے میں حکومت نے کیوں اس قدر جلد بازی کی اس پراگر غور کیاجائے تو پتل چلے گا کہ دراصل حکومت چاہتی ہے کہ کسی ایک طبقے کو نشانہ بناکر ملک کے اندر اپنی ناکامی سے توجہہ ہٹانے کے لئے لوگوں کو پریشان کیاجائے۔یہی وجہہ کہ مرکزی حکومت نے طلاق کے معاملے میں مذہبی رہنماؤں اور اسلامی اسکالروں سے بات کرنا یا مشورہ لینا گوارہ نہیں کیا۔سپریم کورٹ کے چار ججوں کی تشویش برحق ہے جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مرکزی حکومت عدالت کو سیاسی طور پر اثر انداز کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔

پہلے بھی ججوں کے تقرر کے سلسلے میں حکومت نے مداخلت کرنے کی کوش کی تھی اور کاسجیم سسٹم کو ختم کرنے کاکام کیاجارہا تھالیکن اسوقت کے چیف جسٹس نے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔صورت حال اب یہ ہوگئی ہے کہ عدلیہ پر عوام کا جو اعتماد تھا وہ کم ہوتا جارہا ہے ۔ ججوں نے جن باتوں کی طرف اشارہ کیاہے وہ انتہائی اہم ہیں۔

تمام سیاسی پارٹیوں اور خاص طور سے اپوزیشن پارٹیو ں کے علاوہ ملک کے ہر شخص ملک کے ہر شخص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مرکزی حکومت کی اس طرے کی مبینہ کوششوں کو ناکام کرنے کے لئے ہر سطح سے جدوجہد کی جائے۔ اسکے لئے لوگوں کو اگر سڑکو ں پراترنا بھی پڑے تو باز نہیںآناچاہئے۔

او رجمہوری طریقے سے عدلیہ کو سیاسی طور پر متاثر کرنے کوششوں کو ناکام بنیادینا چاہئے کیونکہ اگر لوگوں کا اعتماد عدالتوں سے اٹھ گیا تو پھر ملک کو ٹوٹنے سے بچایانہیں جاسکے گا ۔ امید کرتے ہیں لوگ ججوں کی تشویش سے اتفاق رکھتے ہوئے عدالت کااعتماد مضبوط کرنے کے لئے متحد ہوکر کام کریں گے۔