سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آئے بے چوں چرا قبول

دیوبند: عدالت عظمیٰ میں جاری بابری مسجد مقدمہ کے اہم فریق مولانا حسب اللہ قاسمی نے کہا کہ مولانا سید سلمان ندوی قابل احترام اور قابل قدر عالم دین ہیں تاہم ان کی یہ عملی اور فکری بھول نا قابل معافی ہے۔انھوں نے اللہ کے ایک گھر کو بت کدہ میں تبدیل کر نے کی بات کی ہے۔مفتی حسب اللہ نے کہا کہ ایک مسجد کو کسی بھی مسلک اور مسئلہ کے تحت بت کدہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ انھوں نے بابری مسجد مسئلہ کے حل کے لئے کہا کہ عدلیہ سے بہتر کوئی راستہ نہیں ۔مولانا ندوی کے ذہن میں اگر کوئی خاکہ موجو د بھی تھاتوسب سے پہلے ان کو فریقین مقدمہ سے ربط کر نا چاہئے تھا۔

جمعےۃ العلماء ہند اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اعتماد میں لے کر پیش قدمی کر نی چاہئے تھی۔لیکن انہوں نے سواد اعظم کے خلا ف ایک فیصلہ لیا اور اس پر بضد ہے۔مفتی حسب اللہ میڈیا سے بات کر تے ہوئے کہا کہ ان کو عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ۔اور ایک اعتبار سے وہ بابری مسجد مقدمہ جیت بھی چکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مقدمہ ’’ آستھا ‘‘ کی بنیاد پر نہیں سنا یا جائے گااس طرح سے ہماری بنیادی اور بڑی فتح ہے۔

مفتی حسب اللہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مقدمہ جیت جانے کے بعد بھی ایودھیا میں بابری مسجد کا از سر نو قیام حد درجہ دشوار ہوگا لیکن مسجد کا مسئلہ اس کی عمارت نہیں بلکہ زمین کا ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اللہ کی قدرت بہت عظیم ہے ۔صدیوں تک خانہ کعبہ میں بت رکھے رہے لیکن اس کا وجود باقی رہا اللہ نے حالات بدلے کعبہ بتوں سے پاک وصاف ہوا اور آج الحمد للہ وہاں اللہ کی عبادت ہو تی ہے ۔

ہمیں بھی اللہ کی مدد کی ضرورت ہے ۔اور مایوس ہوکر شکست تسلیم نہیں کر نا چا ہئے۔انھو ں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں مولانا سلمان ندوی نے بابری مسجد مقدمہ کے کسی بھی فریق سے گفت و شنید نہیں ہوئی اور نہ ہی فریقین سے سمجھوتہ کی بات کی گئی۔انھوں نے مزید کہا کہ بابری مسجد کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے اس میں حکو مت یا کو ئی تنظیم یا کو ئی ادارہ اب مداخلت نہیں کر سکتااس لئے جو فیصلہ کر نا ہو گا وہ عدالت کرے گا او رسپریم کورٹ کی جانب سے جو فیصلہ ہوگا وہ ہمیں بے چوں چرا قبول ہوگا ۔