سوائن فلو (swine flu) یونانی طبی نظریہ حفظ ماتقدم اور علاج

پروفیسر بشیر احمد
سابق ریاست آندھرا پردیش کے عوام اگر اپنی یاداشت پر زور دیں تو انھیں مرض سوائن فلو کے وباء پھیلنے کی بات یاد آئے گی ۔ 2009 میں یہ مرض ساری دنیا میں نہ صرف پھیلا تھا بلکہ ہندوستان کی بیشتر ریاستوں اور خصوصاً آندھرا پردیش بھی اس مرض کی لپیٹ میں تھا ۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس مرض کے عالمی سطح پر پھیلنے کی اطلاع پر طبی حلقوں اور عوام الناس میں تشویش دیکھی گئی تھی ۔ آندھرا پردیش میں اس موذی مرض میں مبتلا مریضوں کی نشاندہی کی گئی بلکہ سرکاری سطح پر سرکاری دواخانوں میں اس مرض کے علاج کے سلسلے میں خصوصی انتظامات کئے گئے تھے ۔ مرض کے نام سے جیسا اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ کوئی نیا مرض ہے ایسا نہیں ہے جدید طب کے مطابق اس مرض کی وجہ Virus AHINI ہے ۔ یہ ایک مہلک مرض ہے باوجود جدید طبی ترقی و ایجادات کے عوام میں اس مرض کا جو تاثر دیا جارہا ہے وہ قابل غور ہے اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے لئے دعوت فکر ہے ۔
ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور موجودہ ریاست تلنگانہ میں چند مہینوں سے پھر اس مرض متعدی کے وبائً پھیلنے کی نہ صرف اطلاع ہے بلکہ کئی ایک جانوں کے تلف ہوجانے کے بارے میں اعداد وشمار پیش کئے جارہے ہیں ۔ یونانی طب جس کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے بلکہ اس کے اصول علاج و حفظ ماتقدم اورہدایات آج بھی محفوظ اور شافی ہیں ۔ عوام الناس کو جدید مسائل طب اور دیگر امراض کے علاج کے سلسلے میں یونانی طریقہ علاج کے بارے میں جاننے کیلئے قارئین کی معلومات کے لئے اس مضمون کو قلمبند کیا جارہا ہے ۔یونانی اطباء زمانہ قدیم سے متعدی امراض یعنی (Infectious Disease) اور دیگر اصطلاحات جیسے وباء (Epidemic) عفونت (Sepsis) تعدیہ (Infection) غرض کہ تمام معلومات سے کماحقہ واقف تھے ۔ ان باتوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ متعدی امراض اطباء کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے ، وہ اس کے حفظ ماتقدم اور علاج کے بارے میں بھرپور معلومات رکھتے تھے ۔

نظریہ جراثیم Concept of Organism جدید طب کی دریافت نہیں بلکہ 210 AD میں جالینوس نے اجسام خبیثہ (Micro-organism) اور اجسام غریبہ Forign body کے نام سے موسوم کیا ۔ جدید طب آج اسی کو بیکٹیریا ، وائرس اور دیگر ناموں سے موسوم کرتی ہے ۔ جدید طب میں نظریہ جراثیم پندرہویں صدی میں دریافت کیا گیا ۔ جسم انسانی میں موجود رطوبات بدن جن کو (Humuors) کے نام سے جانا جاتا ہے ، تعدیہ کے ذریعہ سے متاثر ہو کر عفونت پیدا کرتی ہے جس کو تسمیم الدم یعنی (Septicemia) کہا جاتا ہے ۔ مرض پیدا کرنے کا باعث ہے۔
قوت مدبرہ بدن (Body Defence Mechanism) ایک قابل قدر اور سائنسی نظریہ ہے اور جدید طب میں موجود نظریہ امنیت یعنی (Immunity) متذکرہ بالا کا ایک حصہ ہے۔ اطباء کے مطابق کسی بھی مرض کی پیدائش جسم انسانی میں موجود قوت مدافعت کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہی نظریہ بھی جدید طب کا ہے ۔ قوت مدافعت میں کمی کے مختلف اسباب ہوا کرتے ہیں جس میں بیرونی اسباب (External Factors) یعنی موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی ، ماحول کی آلودگی ، گندگی اور آلائش کی موجودگی ، مویشیوں کی بہتات ، درجہ حرارت میں بے قاعدگی (موجودہ سال موسم سرما میں جو درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا وہ نصف صدی قبل کے درجہ حرارت سے کم تھا شاید اسی وجہ سے اس مرض کی دوبارہ وباء ایک سبب ہوسکتی ہے) کچرے کے انبار جن کو نہ جلایا گیا ہے اور نہ دفنایا گیا ہے ۔ کھانے پینے میں بے قاعدگی اور عدم اعتدال ، آرام اور آسائش کی زیادتی یا بے تھکان جسمانی مصروفیات ، نیند اور بیداری میں بے قاعدگی وغیرہ راست یا بالواسطہ قوت مدافعت میں انحطاط کا باعث بنتی ہیں ۔ نتیجتاً کسی بھی مرض کے جراثیم جسم انسانی پر اثر انداز ہو کر مرض پیدا کرتے ہیں ۔

عفونی اور متعدی امراض میں ہرشخص مبتلا نہیں ہوسکتا ، سوائے بچوں کے ، جن میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور بوڑھوں میں انحطاط کی وجہ سے مدافعت کم ہوتی ہے ۔ ایسے نوجوان جو کہ حفظان صحت کی پابندی نہیں کرتے، مرض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے ۔ متعدی امراض کا سبب کھانے پینے میں بے احتیاطی اور بے اعتدالی ، سرد اغذیہ اور ٹھنڈے مشروبات جیسے کولڈڈرنکس ، آئسکریم ، فاسٹ فوڈ ، کچی پکی ترکاریوں کا استعمال ، بازاری کھانوں کی زیادتی ، جسم میں مرض کو قبول کرنے کی استعداد پیدا کرتی ہے ۔ ان اغذیہ کی وجہ سے بدن کے اندرون جو ماحول ہوتا ہے جس کو Internal Enviornment کہا جاتا ہے بگاڑ کا باعث ہوتے ہیں۔ بیرونی ماحول میں ناقص تغذیہ کی وجہ سے پچھلے چند سالوں میں جو امراض بطور وبا پھیل چکے ہیں ، جن دماغی بخار، چکن گنیا ، ڈینگو بخار اور حالیہ ایبولا جن سے کئی معصوم جانیں تلف ہوئی ہیں ، باوجود جدید ترقی کے وباء کی روک تھام ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ عوام میں صحت اور حفظان صحت کے اصولوں کا فقدان یقیناً ایک لمحہ فکر ہے ۔
سوائن فلو کوئی نیا مرض نہیں ہے۔ یہ بھی ایک متعدی مرض ہے جو کہ جانوروں سے انسانوں میں اور پھر انسانوں سے دوسرے صحت مند انسانوں میں منتقل ہوتا ہے ۔ شخصی حفظان صحت کے عنوان سے اطباء نے متعدی امراض کا ایک صحت مند شخص میں بیمار شخص کے ذریعہ سے جس طرح پھیلتا ہے ، اس کی مثال (droplet) تعدیہ سے دی ہے ۔ اس کے علاوہ مریض کی مستعملہ اشیاء کا استعمال بھی بتادیا ہے ۔ پھیپھڑوں کو اطباء نے اعضائے خصیصہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو سوائن فلو میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، جس کی علامات میں بخار ، کھانسی ، زکام ، نزلہ کا پایا جانا بتلایا ہے ۔ جرثومہ virus کی موجودگی جو جسم انسانی کو کمزور کردیتی ہے اور قوت مدافعت کو کبھی کمزور کردیتی ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جدید طریقہ علاج میں جو دوائیں دی جاتی ہیں مثلاً Antibiotics ، Antivirus یہ بھی قوت مدافعت کو مزید کمزور کردیتی ہیں ۔

یونانی اصول علاج میں جسم انسانی میں موجود قوت مدافعت کو محفوظ رکھتے ہوئے اس قوت کو مرض کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کو دوگنا کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ یونانی ادویہ کے استعمال سے مریض کمزوری ، نقاہت محسوس نہیں کرتا ہے ، یہی یونانی ادویہ کی خوبی ہے ۔ اطباء کے مطابق متعدی مرض سے محفوظ رہنے کا طریقہ اور مرض کی صورت میں کن دواؤں کا استعمال کرنا مفید ہے اور کس طرح قوت بدن کو مدافعت کے لئے قوی کیا جاسکتا ہے ، بیان کیا گیا ہے ۔
حفظ ماتقدم ۔ موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لحاظ سے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا ۔ ماحول کی آلودگی سے محفوظ رہنا ۔ مویشیوں اور جانوروں کو شہری آبادی سے دور رکھنا ۔ حشرات الاراض سے محفوظ رہنے کیلئے رہائشی مقام کو پاک صاف رکھنا اور مانع جراثیم دواؤں کی دھونی دینا مثلاً نیم کا سوکھا پتہ ، سرو کے کاڑیوں یا لوبان کی دھونی دینا ۔ کوڑا کرکٹ اور مچھروں کی افزائش والے مقاموں کی صفائی پر توجہ دلانا ۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سوائن فلو خنزیر کی وجہ سے پھیل رہا ہے ۔ ان جانوروں کو شہر سے دور رکھنے کی تدابیر اختیار کرنا ، موسم کے لحاظ سے عذاؤژ کا استعمال ٹھنڈے مشروبات ، آئسکریم سے پرہیز کرنا ، ایک تحقیق کے مطابق بیشتر اغذیہ جو کہ (packed food) کے نام سے دستیاب ہیں ان میں خنزیر کی چربی شامل کی جاتی ہے اور آئسکریم میں Emulcified جو شامل کی جاتی ہے وہ دراصل خنزیر کی چربی ہے ۔ لاعلمی ، نادانستگی اور فیشن کی وجہ سے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سوچے سمجھے بغیر اس کا استعمال کرتے ہیں اور مرض کو دعوت دیتے ہیں ۔

علاج سے متعلق یونانی اطباء کا طریقہ کار جداگانہ نہیں ہے ، چونکہ یہ مرض جراثیم سے پھیلتا ہے ۔ جراثیم خواہ وائرس ہوں کہ بیکٹیریا جسم میں داخل ہو کر رطوبت بدن میں فساد پیدا کرتے ہیں ۔ ان جراثیم کے TOXINS سمی مواد مرض شدید پیدا کرتے ہیں ۔ اس بنیادی نظریہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے تریاق (Anti toxins) کے استعمال کو مفید بتایا ہے ۔ تریاق اربعہ نہ صرف سمی مواد کو دور کرتی ہے بلکہ جسم کے اندرونی ماحول کو درست کرکے قوت مدافعت کو بڑھاتی ہے ۔ جبکہ جدید طب میں اس قسم کی کوئی دوا نہیں ہے ۔ جوکہ Internal Enviornment کو تبدیل کرسکے ۔ جس طرح Steriods زندگی بچانے والی دوا ہے اسی طرح تریاق اربعہ کی نوعیت عمل جو کہ بغیر کوئی نقصان پہنچائے فائدہ کرتی ہے ۔ بہت ساری یونانی ادویہ جو کہ مفرد اورمرکب شکل میں دستیاب ہے راست اور بالواسطہ قوت مدافعت کو قوی کرتی ہیں ۔ جراثیم کے پھیلاؤ کو روکتی ہیں ، فاسد رطوبت کو جسم سے خارج کرتی ہیں ۔ حفظ ماتقدم کے طور پر تریاق خمسہ ، اطریفل اسطوخروس ، لعوق ستیان ، لعوق کتان ، معجون عشبہ ، حب مصفی خون ، حب شفاء ، شربت توتِ سیاہ ، شربت اعجاز معجون دبیدالورد اور مفرد ادویہ جوشاندہ بہدانہ ، عناب ، ستیان برگ اڑوسہ ، اصل اسوس ، گل بنفشہ ، جوشاندہ نزلہ وسعال وغیرہ وباء کی صورت میں کسی تعلیم یافتہ تجربہ کار طبیب کے صلاح مشورہ سے مندرجہ بالا ادویہ استعمال کی جاسکتی ہیں ۔ مقامی طور پر ست پودینہ ، ست کافور ، ست اجوائن کا مرکب بھی فائدہ مند ہے ۔ کھانے پینے میں احتیاط اور حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی لازمی ہے ۔