سفر کی مسنون دعائیں

سوال : جب ہم سفر شروع کرتے ہیں تو سفر کی دعاء پڑھتے ہیں ۔ بعض کتابوں میں سفر کی دعاء کچھ لکھی ہوتی ہے اور بعض کتابوں میں دوسری دعائیں ہوتی ہیں ۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ صحیح طور پر سفر کے موقع پر کی جانی والی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعائیں بیان کریں تو مہربانی ہوگی اور سفر کو روانگی کے وقت دعاء پڑھی جاتی ہے ۔ کیا سفر کی واپسی کے وقت اور سفر کے دوران جو کچھ دعائیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں تو وضاحت فرمائیں ؟
اسلامی بہن
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے اور سواری کے رکاب پر اپنے قدم مبارک رکھتے تو آپ بسم اللہ فرماتے ، پھر جب سواری پر اچھی طرح بیٹھ جاتے تو یہ دعا فرماتے : ’’ سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِینَ وَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ۔ الحمدللہ (تین مرتبہ ) اللہ اکبر (تین مرتبہ) لاَ اِلٰہَ اِلّاَ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ سُبْحَانَکَ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْلِی فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلّاَ اَنْتَ (ابن قیم : زاد المعاد ، 245:3 ، ابو داؤد 77:3 ، حدیث 2602 ) ، یعنی وہ ذات پاک ہے جس نے ہمارے لئے اسے قابو میں کیا ، ورنہ ہم اسے تابع نہ کرسکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کی جانب ہی لوٹنے والے ہیں، تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، کوئی معبود نہیں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بے شک میں ظالم ہوں تو پاک ہے ، میں نے خود پر ظلم کیا تو میرا گناہ بخش دے ، اس لئے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔
اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کے بعد مسکرائے ، پوچھا گیا تو فرمایا : ’’ خدا اپنے اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو یہ کہتا ہے (اے رب) میرے گناہوں کی مغفرت فرما ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا ‘‘ (الترمذی ، 501:5 ، حدیث 3446 ) ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بیٹھ جانے کے بعد یہ دعا پڑھتے : اللہ اکبر (تین مرتبہ) ، سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِینَ وَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ فِی سَفَرِنَا ھٰذَا اَلْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَاتَرْضٰی ، اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَ اطْوِ عَنَّا بُعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ ، اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنْ وَ عَثَائِ السَّفَرِ وَ کَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَ سُوْئِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَھْلِ، یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اسے تابع کیا ۔ ورنہ ہم اسے قابو کرنے والے نہ تھے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں، اے اللہ ہم ا پنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ اور تیرے پسندیدہ عمل کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ہمارے لئے اس سفر کو آسان فرما۔ اس کی دوری کو لپیٹ دے ، اے اللہ تو ہی سفر میں ہمارا ساتھی ہے ، گھر والوں میں ہمارا نائب ہے ، اے اللہ میں سفر کی صعوبتوں ، برے منظر اور گھر والوں اور مال میں برے حالات سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔
جب سفر سے واپسی ہوتی تو یہ اضافہ فرماتے : آئبون ان شاء اللہ تائبون عابدون لربنا حامدون (مسلم ، 978:2 ، حدیث 1342 ، معمولی اختلاف کے ساتھ : الترمذی ، 502:5 ، حدیث 3438 تا 3439 ) یعنی لوٹنے والے ، اگر اللہ نے چاہا توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے اور اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں۔ دوران سفر ہر بلندی پر چڑھتے اور ہر نشیب کی طرف اترتے ہوئے تکبیر کا ورد جاری رکھتے تھے (الترمذی، 500:5 ، حدیث 3445 ) ۔ جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو فرماتے : ’’ اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق ‘‘ (کتاب مذکور ، ص 496 ، حدیث 3437 ) یعنی میں تمام کامل کلمات کے ساتھ ، ہر اس شئے کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو اس نے پیدا کی ۔

سسرال والوں کی خدمت
سوال : بیوی پر شوہر کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی خدمت ازروئے شرع لازم ہے یا نہیں، نیز شوہر کے والدین اوربہنوں کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں بیوی علحدہ رہائش کا مطالبہ کرسکتی ہے یا نہیں ؟ لڑکی شادی کے بعد مہینے میں کتنی مرتبہ اپنے والدین سے ملاقات کے لئے آسکتی ہے ؟
حافظ محمد فیروز، مصری گنج
جواب : شرعاً بیوی پر شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے، شوہر کے ماں باپ کی خدمت شوہر پر ہے، اس کی بیوی پر نہیں۔ اگر بیوی شوہر کے ماں باپ اور سسرال والوں کی خدمت کرتی ہے تویہ اس کا حسن سلوک ہے، لیکن سسرال والوں کی خدمت پر اس کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر شوہر بیوی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ رکھتا ہے اور کچھ کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو بیوی علحدہ مکان میں سکونت کا مطالبہ کرسکتی ہے تاہم اگر شوہر اپنے مکان میں ایک مستقل حجرہ بیوی کے رہنے اور اس کے مال و متاع کی حفاظت کیلئے معہ قفل و کنجی دیتا ہے تو پھر علحدہ مکان کا مطالبہ درست نہیں۔لڑکی کو شادی کے بعد اپنے ماں باپ سے ملنے کیلئے ہفتہ میں ایک بار یا جیسا طریقہ ہو جانے کا حق ہے۔ اگر ماں باپ کے پاس جانے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو شوہر کو منع کرنے کا حق ہے، اس کے والدین آکر مل سکتے ہیں تو شوہر منع نہیں کرسکتا۔

حطیم کعبہ میں نماز
سوال : یہ بات مشہور ہے کہ حطیم کعبتہ اللہ شریف کا حصہ ہے لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے حطیم کو کعبہ کی تعمیر میں شامل نہیں کیا گیا ۔ کیا یہ حقیقت ہے ؟ اور اس میں نماز پڑھنا گویا کعبہ میں نماز پڑھنا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر لوگ حطیم کی طرف رخ کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتے جبکہ وہ خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے اور جب لوگ اس کی طرف نماز نہیں پڑھتے ہیں بلکہ کعبہ کو رخ کرتے ہیں، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا جز نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں اگر آپ کی وضاحت ہو تو بہت سے شکوک و شبہات کا حل ہوسکتا ہے ؟
حافظ سلیمان احمد صدیقی قادری، مستعد پورہ
جواب : حطیم خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے فرمایا : تمہاری قوم کے پاس مالیہ کی کمی ہوئی تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے بیت اللہ شریف کو کم کردیا ۔ یقیناً حطیم بیت اللہ کا جز ہے ۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ عہد جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کرتا اور اس کے دو دروازے ایک مشرقی اور ایک مغربی بناتا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الحج باب فضل مکتہ کے تحت یہ حدیث ہے ۔ روی عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لھا ۔ ان قومک قصرت بھم النفقۃ فقصروا البیت عن قواعد ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام وان الحطیم من البیت ، ولولا حدثانِ عھد ھم بالجاھلیۃ لرددتہ الی قواعد ابراہیم و لجعلت لہ بابین ، بابا شرفیا و بابا غربیا۔
ایک شخص نے بیت اللہ شریف میں دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حطیم میں دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا ۔ روی ان رجلا نذر ان یصلی فی البیت رکعتین فامر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یصلی فی الحطیم (مسلم ،حج ، باب نقص الکعبۃ و بنائھا) اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کعبہ میں نماز پڑھنے کی نذر کی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حطیم میں دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ اب رہا جب حطیم خانہ کعبہ کا جز و حصہ ہے تو پھر دوران نماز اس کی طرف رخ کیوں نہیں کیا جاتا ہے تو اس کا جواب فقہاء نے اس طرح دیا ہے کہ نماز کے وقت خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم قرآن مجید کی نص قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وحیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہ (سورۃ البقرۃ / 144 ) یعنی جہاں کہیں تم ہو تم اپنے چہروں کا رخ کعبہ کی جانب کیا کرو ) اور حطیم کا خانہ کعبہ کا جز ہونا ایسی حدیث سے ثابت ہے جس کو حدیث کے اصول میں خبر واحد کا درجہ حاصل ہے جس کا حکم کتاب اللہ کے حکم کی طرح قطعی نہیں ہوتا ۔ اس لئے راست خانہ کعبہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔(بدائع الصنائع جلد 2 ص : 314 )

مانباپ کو نصیحت کرنا
سوال : زید کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں موجود ہیں۔ کیا زید کا یہ عمل شرعاً درست ہوسکتا ہے ؟ ان سے ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہوگا ۔ کیا زید کا حقیقی بیٹا اپنے والد کو نصیحت کرسکتا ہے ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ زید کے مکان میں ایک آٹھ سالہ مسلمان لڑکی ملازمت کرتی ہے ۔ زید کے گھر والوں کا سلوک اس ملازمہ کم عمر لڑکی کے ساتھ انتہائی ظالمانہ ہے۔ لڑکی کو جسمانی اذیت بھی دی جاتی ہے ، زید نے گھر والوں کی اس حرکت و رویہ پر اختلاف کیا ۔ زید کے والد ان حقائق سے واقف ہونے کے باوجود گھر والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا زید اپنے والد اور گھر والوں کی مخالفت کرسکتا ہے ؟
محمد مولانا ، محبوب نگر
جواب : ہر مسلمان کو بشرط عدل بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کی شریعت نے اجازت دی ہے ۔ چار کے بعد جس عورت سے نکاح ہوگا وہ شرعاً نکاح فاسد ہے، چار عورتوں سے نکاح کے بعد پانچویں عورت سے اگر نکاح کرلیا گیا ہے تو اس سے فوری علحدگی اختیار کرلینا ضروری ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جب یہ عمل لا علمی میں کیا گیا ہو۔ اس صورت میں اولاد ہوئی ہو تو اس کا نسب ناکح (باپ) سے ثابت ہوگا اور اگر حرام ہونے کا علم تھا یا اب علم ہوجانے کے بعد بھی پانچویں عورت سے صحبت کرے تو شرعاً زنا ہے اور زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا اورایسی اولاد کی نسبت ماں کی طرف ہوگی۔ حرام و ناجائز کام سے روکنے کا ہر مسلمان کو حق ہے، لڑکا بھی اپنے والد کو اخلاق کے دائرے میں رہ کر برائی و حرام سے بچنے اور اللہ کے عذاب سے ڈرنے کی تلقین کرسکتا ہے ۔ چھوٹوں کی طرف سے جب نصیحت کرنے کا موقع ہو تو وہ بڑوں کے آداب اور ان کے احترام کو پوری طرح ملحوظ رکھیں اور حق سبحانہ سے ہدایت و نیکی و ایمان پر استقامت کی دعاء بھی کریں۔
کسی مجبور و حاجتمند لڑکی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ ا ٹھانا یا اس کو ستانا اور اس پر ظلم و زیادتی کرنا سخت ناپسندیدہ امر اور نہایت بری بات ہے، اللہ سبحانہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم کی بد دعا سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ سبحانہ کے درمیان کوئی شئی آڑ یا حجاب نہیں بنتی بلکہ وہ راست اللہ تک پہونچتی ہے۔
مذکورہ در سوال لڑکی پر ظلم کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس لڑکی سے معافی چاہیں اور آئندہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک سے باز آئیں تاکہ اللہ کی گرفت اور اس کی پکڑ اور عذاب آخرت سے مامون و محفوظ رہ سکیں۔

قبر پختہ بنانا
سوال : قبر کو پکی اور مضبوط بنانا جیسے سمنٹ وغیرہ اور پتھر کا استعمال کر کے کیا یہ شرعاً درست ہے یا نہیں ؟
فرقان احمد ، فرسٹ لانسر
جواب : شرعاً قبر کو مضبوط و پختہ بنانے کا حکم نہیں ہے۔ ولا یجصص تاتار خانیہ ج 2 ص : 17 البتہ کسی ضرر اور تکلیف سے میت کو محفوظ رکھنے کے لئے جیسے کفن چرانے وغیرہ کی طرح کسی عمل سے حفاظت کے لئے ہوتو اس صورت میں کچی اینٹوں سے قبر کی حفاظت کیلئے تعمیر درست ہے ۔ تاتار خانیہ ج 2 ص : 169 میں ہے ۔ والیوم اعتادو التسنم باللبن صیانۃ للقبرعن النبش و رأوا ذلک حسنا ۔