سعودی عرب میں خواتین کو آزادی ایک انقلاب

ظفر آغا

لیجیے سعودی عرب بھی بدل گیا۔ وہ سعودی عرب جہاں عورت کا سایہ بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی سعودی عرب کی عورت اب خود کار چلا کر ہواؤں سے بات کر رہی ہے۔ جی ہاں، آج کی عورت اب اونٹ چھوڑ کر نہ صرف کار کی سواری پر سوار ہے بلکہ اب وہ خود کار چلا رہی ہے۔ یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ اونٹ سے اتر کر کار پر سوار ہونا تو ایک معمولی بات ہے، لیکن ایک بدوی سماج میں عورت کو کار چلانے کی اجازت ملنا کسی انقلاب سے کم بات نہیں ہو سکتی ہے۔ صرف کار چلانا ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کی عورت اب اسپورٹس سے لے کر انٹرٹینمنٹ تک ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس کو انقلاب کہتے ہیں اور اس انقلاب کے موجد کا نام ہے شہزادہ محمد بن سلمان جو سعودی عربیہ کے اگلے فرمانروا یعنی بادشاہ ہونے والے ہیں۔

محمد بن سلمان سعودی عرب میں ایک انقلاب کے موجد ہیں۔ وہ میڈیویل سعودی سوسائٹی کو دقیانوسی دور سے نکال کر ایک ماڈرن سوسائٹی میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ ان کی خواہش ہی نہیں بلکہ ان کا مشن ہے۔ محض 32 برس کی عمر کا یہ سعودی شہزادہ صدیوں سے چلی آرہی رسم و رواج کو توڑ کر سعودی عربیہ کو ایک ایسے دور میں لے جانے کا خواہاں ہے جہاں سعودی عرب دنیا کے کسی بھی ملک سے کم تر نہ رہ جائے۔ لیکن یہ کام کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس معاشرے کی عورت اتنی ہی آزاد نہ ہو کہ جتنی آزادی اس معاشرے میں مرد کو حاصل ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کی تقریباً 50 فیصد آبادی عورتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر کسی معاشرے کی 50 فیصد آبادی گھر کی چہار دیواری میں بند ہو کر رہ جائے تو وہ معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا!

لیکن مسلم معاشرے میں یہ بات دکھانا تو درکنار کہنا بھی عموماً معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور پھر سعودی عربیہ کہ جہاں کی عورت گھروں کے حدود تک زندگی گزارنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اس معاشرے میں عورت کو کارڈ ڈرائیونگ کی اجازت ملنا کوئی معمولی بات تو نہیں کہی جا سکتی ہے۔ مسلم عورت کی آزادی کی یہ تحریک سعودی عربیہ سے شروع ہو یہ بات خود اپنے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ دنیا میں حقوق نسواں کا تصور بھی سب سے پہلے سعودی عربیہ نے ہی دنیا کو دیا تھا۔ جی ہاں، دنیا میں محمد عربیؐ سے قبل دنیا میں دوسری ہر قسم کی آزادی کی تحریکیں تو چلی تھیں لیکن عورتوں کے اپنے حقوق بحیثیت عورت کے ہوتے ہیں اس کا کوئی ایسا منظم تصور نہیں تھا جیسا کہ اسلام کے ذریعہ قرآن اور پیغمبر محمد عربیؐ نے دنیا کو دیا۔ مثلاً اللہ کے رسولؐ نے مسجدوں کے دروازے عورت کے لیے ویسے ہی کھول دیے جیسے مردوں کے لیے کھلے تھے۔ مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں آج بھی عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو کر نماز پڑھتی ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر شک ہو تو حج کے دوران خانہ کعبہ میں ہونے والی نمازوں میں خود شرکت کر کے دیکھ لے۔ یعنی اللہ کے گھر میں عورت اور مرد کو بالکل برابری کا درجہ دینے کا شرف اسلام کو حاصل ہے۔ جب اللہ کے گھر میں عورت مرد کے برابر ہے تو پھر اس دنیا اور اپنے گھر میں بھلا کیسے عورت کا درجہ مرد سے کم ہو سکتا ہے!

اسلام نے اس دنیا میں بھی عورت کو ہر قسم کے حقوق عطا کیے۔ اگر مرد کو طلاق کا حق دیا تو عورت کو خلع کا حق عطا کیا۔ شادی یعنی نکاح کے وقت ازدواجی زندگی کے لیے پہلے عورت کی اجازت کا حکم دیا۔ یعنی ازدواجی زندگی عورت کی مرضی کے بغیر نہیں قائم ہو سکتی ہے۔ کیا ساتویں صدی عیسوی میں یہ ایک انقلابی تصور نہیں تھا۔ ارے آج بھی شادی کے لیے عورت کی مرضی ضروری نہیں سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت یہ عمل یقیناً حقوق نسواں کے تعلق سے ایک انقلاب تھا۔ ایسے ہی خود رسولؐ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہؓ مکہ کی کامیاب ترین تاجر تھیں۔ یعنی اسلام نے عورت کو خود روزگار کے ذریعہ کمائی کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کو ایک شرعی عمل بنا دیا۔ اسی طرح اسلام نے عورت کو اپنے والدین اور شوہر کے مال و املاک میں حصہ دار بنا کر عورت کی معاشی آزادی کو اور مستحکم بنایا۔ رسولؐ کی زندگی میں عورت مدینہ میں اس قدر آزاد تھی کہ جب رسولؐ جنگ پر جاتے تھے تو امہات مومنین سمیت پورے مدینہ کی عورتیں اسلامی فوج کے ساتھ محاذ جنگ پر جاتی تھیں اور وہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کا کام کرتی تھیں۔

افسوس کہ اسی مسلم معاشرے میں اب اس بات کو عین اسلام بتایا جاتا ہے کہ جہاں عورت محض گھر کی چہار دیواری میں بند رہے۔ اگر امہات مومنین میدان جنگ میں جا سکتی تھیں تو آج کی مسلم عورت کسی اسپتال میں ڈاکٹر یا نرس کے فرائض کیوں نہیں انجام دے سکتی ہے۔ اگر رسولؐ کے دور کی عورت خود اونٹ چلا سکتی تھی تو وہ اس دور میں کار خود کیوں نہیں چلا سکتی ہے۔ اگر زوجہ رسولؐ تاجر ہو سکتی تھیں تو آج کی مسلم عورت تاجر یا کسی اور قسم کی پروفیشنل کیوں نہیں ہو سکتی ہے۔ قرآن میں اللہ اگر اقرا کہتا ہے تو وہ محض یہ حکم مردوں کے لیے نہیں دے رہا ہے بلکہ عورتوں کو بھی دے رہا ہے۔ مگر آج بھی اکثر گھروں میں لڑکوں کو تو پڑھایا جاتا ہے لیکن لڑکیوں کو گھر میں بند رکھا جاتا ہے۔ آخر کیوں!

بات یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام دنیا کا سب سے ماڈرن نظام حیات تھا۔ تب ہی تو بجلی کی طرح اسلام دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ لیکن اسلام تو نہیں بلکہ آہستہ آہستہ مسلم معاشرہ اسلامی قدروں کے بجائے مسلم رسم و رواج کا ویسے ہی قید ہوتا چلا گیا جیسے کہ دوسرے اس وقت کے معاشرے تھے۔ پھر ایک دور یہ آیا کہ یورپ نے ماڈرنٹی قبول کر لی اور وہ ترقی پذیر ہو گیا جب کہ مسلم معاشرہ دقیانوسی رسم و رواج کا شکار ہو کر پسماندگی کا شکار ہو گیا۔ اور مسلم معاشرہ دنیا کا سب سے زیادہ پسماندہ معاشرہ بن چکا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اسی پسماندگی کو ختم کر مسلم معاشرے کو پھر سے ماڈرنٹی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ کام عورت کو ساتھ لیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس دور میں اگر عورت خود کار نہیں چلائے تو پھر وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں پیچھے رہ جائے گی کہ نہیں۔ اس لیے سعودی عرب میں عورت کو کار ڈرائیونگ لائسنس ملنا ایک انقلاب ہے اور اس انقلاب کے موجد شہزادہ محمد بن سلمان یقیناً اس بات کے لیے قابل مبارکباد ہیں۔