سرحد پار کارروائی

ہوگئی ہر یاد تازہ
درد کا موسم بہت ہے
سرحد پار کارروائی
بالآخر ہندوستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے سرحد پار پاکستانی حدود میں گھس کر دہشت گردوں کو نشانہ بنایا اور وہاں فضائی حملے کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کردیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کارروائی میں سات تا آٹھ ٹھکانے تباہ ہوئے اور تقریبا 30 تا 40 دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہندوستان کی جانب سے یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی ہے جبکہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور یہ بہتری کی سمت مائل ہونے کے امکانات بھی موہوم ہیں۔ ویسے بھی گذشتہ چند ہفتوں سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں تیزی اور شدت کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی ۔ کشمیر میں جاری بدامنی کے دوران اوری میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ہندوستان میں خود برہمی کی لہر پیدا ہوگئی تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ ہندوستان کو پاکستان کے ایسے حملوں کا منہ توڑ جواب دینا ہی چاہئے ۔ عوام میں جو برہمی پیدا ہوئی تھی اس کی وجہ سے بھی حکومت کیلئے دباؤ کی کیفیت تھی ۔ اپوزیشن جاعتیں الگ قومی سلامتی کے مسئلہ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنار ہی تھیں۔ وزیر اعظم کو شخصی طور پر نشانہ بناتے ہوئے خاموشی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا تھا اور کہا جارہا تھا کہ اپوزیشن میںرہتے ہوئے نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف بلند بانگ دعوے کئے تھے اور اب ان کے دور اقتدار میں پاکستان کی جانب سے حملے ہو رہے ہیں اور ہندوستان خاموش ہے ۔ ایسے میں حکومت ہند پر یہ دباؤ بڑھتا جا رہا تھا کہ وہ پاکستان کے حملوں کے خلاف کوئی مناسب کارروئی کرے اور پاکستان کو اس کے اقدامات کیلئے ذمہ دار قرار دیا جائے ۔ وزیر اعظم نے پہلے تو حالانکہ پاکستان کے ساتھ جنگ کا امکان مسترد کردیا تھا ۔ اب صرف کچھ دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ یہ منتخب نشانوں کے خلاف کارروائی تھی اور اسے مخالف دہشت گردانہ کارروائی کہا جاسکتا ہے ۔ اسے مکمل جنگ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور نہ پاکستان پر حملہ کہا جاسکتا ہے ۔ یہ صرف دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے کی گئی کارروائی تھی اور اسے انسداد دہشت گردانہ کارروائی ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔
ہندوستان مسلسل پاکستان سے کہتا آ رہا تھا کہ اس کی سرزمین کو مخالف ہند کارروائیوں اور سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاہم پاکستان اس پر توجہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ اس کے برخلاف کشمیری عوام کی جدوجہد کی تائید کے نام پر اشتعال انگیزیاں کی جا رہی تھیں۔ کشمیر میں مداخلت کو سفارتی اور اخلاقی تائید کا نام دیا جا رہا تھا ۔ ہندوستان بارہا پاکستان پر زور دے رہا تھا کہ وہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تائید سے باز آجائے لیکن پاکستان کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں تھا ۔ اس کی اپنی الگ منطق تھی اور اسی منطق کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے حالات کو بگاڑا جا رہا تھا ۔ اوری حملے سے قبل کشمیر میں دو مہینوں تک صورتحال بے قابو رہی ۔ وہاں مسلسل عوامی احتجاج چلتا رہا ۔ کرفیو نافذ رہا ۔ عوام کی نقل و حرکت پر پابندیاں رہیں۔ تقریبا 85 نوجوان فائرنگ میں ہلاک ہوگئے ۔ ہزاروں افراد پیالٹ گنس کی وجہ سے زخمی ہوئے ۔ سینکڑوں افراد اپنی بصارت سے محروم ہوگئے ۔ وہ نابینا ہوگئے ۔ عوام کو بے طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس سارے معاملہ میں پاکستان نے اپنی اشتعال انگیزیوں کے ذریعہ حالات کو بگاڑنے میں ہی اہم رول ادا کیا ۔ کشمیری عوام سے ہمدردی کے نام پر ان کا استحصال کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کیلئے حالات کو اور بھی سنگین اور مشکل ترین بنادیا گیا ۔ یہ ہمدردی نہیں بلکہ بالواسطہ دشمنی تھی اور یہی پاکستان کی روش رہی ہے ۔ پاکستان کو آج اس کی اسی روش اور منطق کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے اور عالمی سطح پر اسے یکا و تنہا کرنے کی مہم میں بھی شدت پید ا ہوگئی ہے ۔
ہندوستان نے سرحد پار مخصوص دہشت گردانہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی جو کارروائی کی ہے وہ خوش آئند ہے ۔ اس کیلئے ہماری مسلح افواج قابل مبارکباد ہیں۔ پاکستان اپنے طور پر اس کارروائی کی نفی کر رہا ہے تو یہ اس کے اپنے داخلی حالات کا نتیجہ ہوسکتا ہے لیکن ہم نے پاکستان پر یہ واضح کردیا ہے کہ اب کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کیلئے اسے جوابدہ ہونا پڑیگا ۔ اندرون ملک اس کارروائی کو سیاسی اور جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو شخصیت پرستی کی مثال بھی بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ جو کارروائی ہماری مسلح افواج اور حکومت نے کی ہے اس کو سارے ہندوستانیوں کی تائید حاصل ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اس کا خیر مقدم کر رہی ہے ۔ ملک کے عوام میں اوری حملہ کے بعد پیدا ہوئی برہمی کم ہوئی ہے ۔ یہ سارے ہندوستانیوں کی جانب سے پاکستان کو دیا گیا جواب تھا ۔ اس کو سیاسی تنگ نظری کا شکار کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔