سرحدیں صرف انسانوں کیلئے … تجارت اپنی جگہ

محمد علیم الدین
بھارت اور پاکستان کے درمیان وقفے وقفے سے سرحدوں پر کشیدگی پیدا ہوتی رہتی ہے ، یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ کچھ عرصہ حالات معمول پر رہتے ہیں ، پھر یکایک کسی جگہ کوئی حملہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کردیتا ہے، تناؤ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ باہمی تجارت بعض بڑے حملوں کے بعد بھی متاثر نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ اُری حملہ کے بعد تجارت متاثر ہونے کے اندیشوں کے باوجود ہند۔پاک تجارت کا رابطہ برقرار ہے جس کی عکاسی ایل او سی کا ایک گاؤں کررہا ہے۔
حاجی پیر کی تنگ پٹی کی دوسری جانب پہاڑی چوٹی پر پاکستانی آرمی کی چوکیاں ہیں۔ موسم سرما کے کُہر آلود ماحول میں ہتھلانگا گاؤں سے دیکھیں تو نظارہ بڑا دلکش رہتا ہے۔ نالہ میں دھیرے دھیرے بہتا پانی، آس پاس ہرے بھرے درختوں سے دلفریب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم وہاں کوئی اجنبی پہنچے تو قدرتی مناظر کا یونہی بے خوف و خطر نظارہ کرتے نہیں رہ سکتا۔ مضبوط بنکر سے نکل کر کوئی ہندوستانی سپاہی آپ کو متنبہ کرے گا کہ اس طرح گھومنا پھرنا ٹھیک نہیں۔ ’’پاکستانی سپاہی اس گاؤں کے ہر فرد کو جانتے ہیں۔ وہ غیرمانوس چہروں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔‘‘
یوں سمجھئے کہ حاجی پیر اس علاقے میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) ہے، جو جموں و کشمیر کے ضلع بارہمولا میں اُری سے 15 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اگر آپ ہتھلانگا کیلئے اجنبی ہو تو وہاں کا روایتی ڈریس فی الواقع ڈھال کا کام کرسکتا ہے۔ دو رنگارنگ گاؤن والا لباس جو پیروں تک ہوتا ہے، ایل او سی کے پار والے نشانہ باز کو یقین دلاسکتا ہے کہ آپ مقامی فرد ہو۔حالات تین ماہ قبل تک اس قدر بے بھروسہ نہیں تھے۔ کشیدگی تو 18 سپٹمبر کے بعد بڑھ گئی جب چار فدائین عسکریت پسندوں نے اُری ٹاؤن میں آرمی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرتے ہوئے 18 فوجی جوانوں کو ہلاک اور اتنے ہی دیگر کو زخمی کردیا۔ تب سے حاجی پیر کی پہاڑیوں کے دونوں کناروں پر تعینات دونوں فوجوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مضطرب ہیں اور ایسے اندیشوں کے درمیان جی رہے ہیں کہ فائرنگ کا تبادلہ بڑھتے ہوئے بھاری مورٹار شل باری میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
ان جھڑپوں کا ایک شاخسانہ تو سکیورٹی چیکنگ میں اضافہ ہے۔ آرمی ’’باہر والوں‘‘ کی کوئی بھی نقل و حرکت کی اجازت نہیں دیتی ہے جن میں صحافی لوگ شامل ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی ان دیہات کو نہیں جاسکتا جو ٹھیک ملٹری کنٹرول لائن پر ہیں۔ ٹاٹا سومو گاڑیاں مسافر گاڑیوں کا کام بھی کرتی ہیں اور دن میں دو مرتبہ چلائی جاتی ہیں، لیکن انھیں بھی بعض گاؤں جیسے ہتھلانگا یا سلیکوٹ میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی بجائے مقامی لوگوں کو سرحدی باڑھ کی گیٹس سے اپنے مکانات تک پہنچنا پڑتا ہے ۔ یہاں پر گاؤں پوری سرحدی باڑھ پر پھیلے ہوئے ہیں لیکن ایل او سی کے اندرون واقع ہیں۔
اصل سرحد کی ترتیب 1972ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شملہ معاہدہ کے بعد ہوئی تھی، اور اگلے دو دہے ہتھلانگا میں عام زندگی نسبتاً پُرسکون رہی۔ اس گاؤں کے سربراہ مرزا محمد بتاتے ہیں کہ 1990ء تک دیہی آبادی میں کافی سرگرمی ہوا کرتی تھی جب اس کی ’’قابل لحاظ‘‘ آبادی تھی۔ پھر شورش پسندی پھوٹ پڑی۔ اس سے 1990ء میں بڑے پیمانے پر پاکستان مقبوضہ کشمیر کی طرف نقل مقام چھڑ گیا۔ 72 سالہ مرزا کا کہنا ہے کہ اکثر سکیورٹی فورسیس گاؤں والوں پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ سرحد پار سے کشمیری عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت میں مدد کرتے ہیں۔ اس ترک وطن نے گاؤں کے گھرانوں کی تعداد کو ایک تہائی گھٹا کر محض 30 کردیا ہے۔نقل مقام ابھی تک نہیں رُکا ہے۔ 2014ء میں ایک نوجوان خاتون ہتھلانگا میں اپنی فیملی کے ساتھ جھگڑے کے بعد ایل او سی کو عبور کرگئی۔ شکیلہ بانو پاکستانی سمت موضع لاڑی پہنچ گئی اور پھر مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 90 کیلومیٹر کے فاصلے پر باغ سٹی میں اپنے اَنکل کے مکان پہنچی۔ اس موسم گرما اسے وطن واپس بھیج دیا گیا۔ 30 سالہ شکیلہ کو رشتے داروں نے اواخر اپریل میں استقبال کیا جب وہ سرحدی مقام چکوٹھی سکے کمانِ امن سیتو عبور کرتے ہوئے واپس ہوئی۔
یہی بالائی گزرگاہ نے جسے وسط 2005ء میں کھولنے کے بعد سے ’پیس برج‘ بھی کہا گیا ہے، اس سال کے اواخر ایک اور فیملی کا دوبارہ ملاپ کرایا ہے۔ شمیمہ اختر بھی برہمی کے عالم میں اس علاقہ کے محلہ سورا میں اپنی فیملی کو یکایک چھوڑتے ہوئے ایل او سی عبور کرگئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے فوجوں کے درمیان مذاکرات ہوئے، آخرکار اندرون پندرہ یوم 9 سپٹمبر کو اُس خاتون کی اپنے آبائی موضع کو واپسی کے موجب بنے۔
اُری سب ڈیویژنل مجسٹریٹ شوکت احمد راٹھر کو امید کی کرن نظر آتی ہے جب وہ اس طرح کے واقعات کو یاد کرتے ہیں۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ ’پیس برج‘ نے ایل او سی کے پار بس سرویس اور دونوں طرف کے کشمیریوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے اصل مقصد سے کہیں بڑھ کر سہولت کا کام کیا ہے۔ تاہم ہتھلانگا کے پنچایت ممبر محمد دونوں آرمیوں کے درمیان پھر سے فائرنگ کے تبادلوں پر فکرمند ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے اس سے ہم کو دہا 1990ء کے دور میں واپس چلے جانے کا اندیشہ ہے جب بھاری شل باری نے ہمارے لئے زندگی اجیرن بنادی تھی۔
اضطراب ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طور پر یکم ڈسمبر کو محمد رمضان پر ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھلانگا میں اُس کا نیا مکان اسے وہ سکون فراہم نہیں کرپایا ہے جس سے وہ سرینگر میں میستری کے طور پر کام کرتے ہوئے محروم رہا۔ پڑوسی موضع بالکوٹ کا متوطن 40 سالہ میستری معمر محمد شفیع کے مکان میں کام کرتا رہا ہے، جن کے دو بیٹے آرمی میں ہیں۔ محمد رمضان نے محمد شفیع کے مقام پر چھ روز میستری کا کام کرتے ہوئے 600 روپئے فی یوم کمائے۔
یہ کام اچانک روک دینا پڑا، کیونکہ ہندوستانی اور پاکستانی فورسیس کے درمیان رات کے اوقات کی فائرنگ نے میستری کو سکون کی نیند لینے کا موقع نہیں دیا۔ وہ کہتا ہے، ’’میری اُجرتیں سرینگر اور اُری میں یکساں ہیں۔ امن و سکون سے کام کرنے کی خاطر میں اس موضع میں کام کرنے آیا ہوں۔‘‘ پاکستانی آرمی لگ بھگ ہمیشہ ہی غروب آفتاب کے بعد اور کبھی کبھار ہتھلانگا کی طرف فائرنگ کرتی ہے۔ محمد رمضان کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا تبادلہ چند منٹ چلتا ہے، جب کہ دیہاتی لوگ گارے اور لکڑی سے چھوٹی جھونپڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ’’جلد ہی سکون بحال ہوتا ہے اور سارا گاؤں دن کے اوقات میں پُرسکون ہوتا ہے۔ ہم موجودہ صورتحال کے تعلق سے زیادہ مایوس نہیں ہیں، لیکن اگر شل باری شروع ہوجاتی ہے تو یہاں رہنا خطرناک ہوجائے گا۔‘‘
تاہم یہی ماحول حاجی پیر روڈ کا نہیں ، جو قریہ سلیکوٹ تک جاتی ہے، اور وہاں خوف و ہراس نہیں پایا جاتا۔ بالکوٹ میں نوجوان بدستور گلیوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ محکمہ عمارات و شوارع سے وابستہ مزدور اُن راستوں کے مرمتی کام میں مصروف ہیں جن کو کئی مقامات پر زمینی تودے کھسکنے سے نقصان پہنچا ہے۔ طلبہ اسکول سے بخیرو عافیت گھروں کو واپس ہوتے ہیں۔ بالکوٹ ہائی اسکول کا جماعت نہم کا طالب علم محمد اقبال اپنے گاؤں موتاہل تک اپنے دوستوں کی رفاقت سے کافی محظوظ ہوتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے، ’’ہم اسکول پہنچنے کیلئے روزانہ تقریباً چار کیلومیٹر کا مسافت طے کرتے ہیں‘‘۔
سلیکوٹ بھی ایل او سی پر واقع ہے اور اس کی سرحدی باڑھ کی گیٹ پر سپاہی متعین رہتے ہیں، جہاں سے ’باہر کے آدمیوں‘ کو داخلہ کی اجازت نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ پاکستانی آرمی کی جانب سے اچھی طرح جانچ پڑتال نہ ہوجائے۔ حاجی پیر روڈ پر ایک دکاندار غلام احمد پرّے کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ کبھی مصروف تجارتی گزرگاہ ہوا کرتی تھی جو ضلع پونچھ کو اُری سے جوڑی تی ہے اور پھر مقبوضہ کشمیر کے باغ تک جاتی ہے۔ 1947ء کی  تقسیم ہند اسے ناگزیر طور پر بند کردینے کا موجب بن گئی۔
پھر 1965ء کی جنگ میں جب ہندوستان نے درۂ حاجی پیر پر قبضہ کیا تو یہ روڈ چھ ماہ تک کھلی رہی۔ ہندوستان نے درۂ حاجی پیر پاکستان کو واپس کردیا جبکہ وہ ملک دونوں پڑوسیوں کے درمیان تاشقند معاہدہ کے پیش نظر جموں میں چھمب سیکٹر سے دستبرداری اختیار کرلی۔ تب غلام احمد کم عمر لڑکے تھے۔ انھوں نے حاجی پیر روڈ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں ہالن کا سفر کیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے: ’’وہاں میرے کوئی رشتے دار نہیں ہیں۔ میں نے سڑک کا راستہ منتخب کیا کیونکہ وہ کھلا تھا۔ پیدل سفر میں سنسنی خیز رہا۔ آج ایسی کوئی آزادیاں نہیں ہیں۔ آزادی تو چھوڑئیے، صرف عدم سلامتی کے احساسات محسوس ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم غلام احمد کو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کی امید ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بار بار فائرنگ کا تبادلہ موقوف ہونا چاہئے۔
سلیکوٹ سے 10 کیلومیٹر کے فاصلے پر اُری کا گہماگہمی والا بڑا بازار 2 ڈسمبر کو کھلا رہا، جو وادی کے دیگر حصوں کے برعکس معاملہ ہوا۔ چونکہ یہ جمعہ کا موقع تھا، اور حریت کانفرنس کے علحدگی پسند اجتماع نے ہڑتال کی اپیل کررکھی تھی۔ ایل او سی کے پاس رہنے والے تاجر عطاء اللہ ہانڈو کا کہنا ہے کہ اس طرح مارکیٹ کھلی رہنا غنیمت ہے۔ اُری ٹریڈرز اسوسی ایشن کے عہدہ دار کی حیثیت سے وہ فائرنگ کی بجائے سرحدپار تجارت کے تعلق سے بات کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’’ہمیں بزنس کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کیلئے مزید سہولتیں ضرور حاصل ہونا چاہئے۔‘‘
کشمیر کے منقسم حصوں کے درمیان ایل او سی پار تجارت کی شروعات آٹھ سال قبل ہوئی۔ ٹھیک ٹھیک کہیں تو 2005ء کے موسم گرما میں سرحد پار ایل او سی سفر کے کامیاب تجربے کے بعد 21 اکٹوبر 2008ء کو یہ تجارت شروع ہوئی۔ ایل او سی پار تجارت کو نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشمیر پر مرکوز سب سے بڑا اعتماد سازی اقدام سمجھا جاتا ہے، جس کے تحت 21 متفقہ اشیاء کی تجارت ایسے سسٹم کے تحت ہوتی ہے جس میں کیاش (نقدی) یا نٹ بینکنگ کا کوئی رول نہیں۔ اسے رقم کے استعمال کے بغیر اشیاء کا مبادلہ کہتے ہیں۔ دونوں فریقوں نے ایل او سی کے اندرون لگ بھگ 5 کیلومیٹر تک تجارت میں سہولت کے مراکز تعمیر کئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹرکس کو ایسے مراکز تک داخلے کی اجازت ہے، جیسا کہ وہ کشمیر کے اُری میں سلام آباد اور جموں کے پونچھ میں چکنداباغ تک جاسکتے ہیں۔ وہاں یہ ٹرکس اپنی لائی ہوئی اشیاء پہنچاتے، جو پھر مقامی ٹرکس کے ذریعے آگے بڑھا دیئے جاتے۔ یہ تجارت ہفتے میں چار یوم منگل تا جمعہ ہوتی ہے۔
عطاء اللہ نے اسی تجارتی سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے کیلوں سے بھرا اپنا ٹرک مقبوضہ کشمیر میں کے تاجر کیلئے بھیجا ہے جس انھوں نے کبھی دیکھا نہیں، اور اس کے عوض میں مطلوبہ اشیاء کی توقع رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس تجارت کیلئے فہرست پر موجود اشیاء یکساں رہتی ہیں۔ اُن کا کوئی متبادل نہیں۔اُری کے تاجرین نے امرتسر اور لاہور کے پیشہ ور افراد کے درمیان حالیہ اختلاف کی بات بھی کہی ہے۔ یہ پروفیشنلز پنجاب میں واگھا سرحد کے ذریعے تجارتی کام انجام دیتے ہیں۔ عطاء اللہ کا کہنا ہے، ’’اس مسئلہ کی یکسوئی کرلی گئی ہے۔ اب سلام آباد کی تجارتی مرکز میں ٹماٹر سے لدے ٹرکس کو سرینگر واپس ہونا ہوگا۔ اس طرح کی ایمرجنسی صورتحال کیلئے ہمیں اشیاء کو محفوظ رکھنے کی سہولت درکار ہے‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ 5,300 کروڑ روپئے قدر والی تجارت جو سب کیاشلیس ہے، 2008ء سے ایل او سی کے پار انجام پائی ہے۔ اس مدت میں کشمیر کے دو حصوں کے درمیان 84,000 گاڑیاں چلی ہیں۔ اُری حملہ کے بعد جاری کشیدگی نے ایل او سی پار بس سرویس اور تجارت کو موقوف نہیں کیا ہے۔ لیکن حکام مطمئن ہوجانے اور تن آسانی کا مظاہرہ کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اُری کی خوف سے پاک منڈی سے بہت دور واقع بارہمولا ٹاؤن آفس سے وابستہ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس امتیاز حسین میر کو اپنے علاقہ کے ایل او سی والے گوشہ میں کشیدگی میں اضافے پر تشویش ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ بارہمولا میں سنگباری والے احتجاجوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ لگ بھگ ختم ہوگیا ہے۔ مگر دراندازی کی کوششیں ہوئی ہیں۔