سجن کمار پر1984کے سکھ فسادات پر عدالت نے فیصلہ سناتے وقت 2002گجرات واقعات کو شامل کیا۔

سجن کمار پر فیصلہ۔ دہلی ہائی کورٹ نے مانا ہے کہ سیاسی لیڈراس کے زیرقیادت ایسے حملوں میں جس کے میں اقلیتوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے یکسانیت پائی جاتی ہے۔

نئی دہلی۔ دہلی ہائی کورٹ نے1984کے مخالف سکھ فسادات میں کانگریس لیڈر سنجن کمار کو قصور وار ٹہرایا اور اس واقعہ کو بڑے پیمانے پر پیش آنے والا قتل عام قراردیا اور کہاکہ اس قسم کے واقعات میں مجرمین کو انصاف تک لانا ایک بڑا چیالنج ہے کیونکہ وہ سزائے سے بچانے کے لئے اپنے سیاسی اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔

ججوں نے کہاکہ’’ انسانیت کے خلاف جرائم ہوں یا پھر نسلی کشی دونوں ہی جرم کے گھریلو قانون ہیں۔ان خامیوں کو جنگی خطوط پر ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔

اکٹوبر31کے روز سکھ باڈی گارڈس کے ہاتھوں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے بے رحمانہ قتل کے بعد پیش ائے مخالف سکھ فسادات کے دوران نومبر1984میں ایک ہی خاندان کے پانچ لوگوں کے قتل واقعہ میں73سالہ سجن کمار کو عدالت کے قصور وار ٹہرایا ہے۔

دہلی کے بشمول دیگر شہروں میں چار روز تک چلنے والے مخالف سکھ فسادات میں تقریبا3000لوگ مارے گئے تھے۔

عدالت نے اس کو آزاد ہندوستان کے تاریخ میں پیش واقعات کے زمرہ میں شامل کیا جب اقلیتی طبقات کونشانہ بنایاگیاتھا۔

ججوں نے کہاکہ ’’ ہندوستان میں 1984نومبر کے ابتداء میں اکیلے دہلی میں2733سکھوں اور ملک کے دیگر حصوں میں 3,350سکھوں کا قتل عام( یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں) کا بے رحمی کے ساتھ قتل کیاگیا ‘ پہلا یا افسوس کے ساتھ کہیں تو پہلا واقعہ نہیں ہے۔

تقسیم ہند کے دوران بڑے پیمانے پر دہلی ‘ پنجاب کے علاوہ دیگر مقامات پر قتل ہوا‘ جس کے یاد 1984نومبر میں سکھوں کے قتل سے تازہ ہوگئی۔

ٹھیک اسی طرح 1993کو ممبئی میں 2002کو گجرات میں اور 2008کو اڈیشہ کے کاندھا مل او ر2013کو اترپردیش کے مظفر نگر میں بڑے پیمانے پر قتل کیاگیاتھا‘‘