سال 2014کے بعد سے ملک میں ہندوتوا کا زور نہیں بلکہ ہندوتوا کے فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔

کانگریس لیڈر کپل سبل مثالیں پیش کرنے میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ عدالت میں بھی وہ اپنی مثالوں کے ذریعہ زیادہ تر مواقعوں پر بنچ کو مطمئن کرلیتے ہیں ‘ لیکن کورٹ روم کے باہر زیادہ تر موقع پر ان کا سیاسی بیان تنازعات کا سبب بن جاتا ہے۔

پھر بھی وہ ان لیڈروں میں شمار کئے جاتے ہیں جنھیں صاف گوئی کے لئے جانا جاتا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ راہول گاندھی کے شمالی ہندکے کسی لیڈر سے تقابل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ شمال کے کسی صدر کو موجودہ سیاسی حالات کی چیالنجوں سے مقابل ہونے نہیں پڑا تھا۔

سبل کا دعوی ہے کہ 2019کے نتائج بہار اور اترپردیش سے طئے ہونے ہیں اور دونو ں ہی ریاستوں میں بی جے پی شکست فاش ہورہی ہے۔ایک ہندی اخبار کے نمائندے سے کی گئی کپل سبل کی بات چیت کے کچھ اقتباسات یہاں پر پیش کئے جارہے ہیں۔

سال2014کے بعد ہندتوا کا زہر بڑھاہے کیاکانگریس بھی اس کے دباؤ میں ہے؟

اگر میں ہندو ہوں اور مندر جارہاہوں تو اس میں دباؤ کی بات کہاں سے آگئی؟۔میرا ماننا ہے کہ پوجا کرنے ‘ مندر جانا اتنا اہمیت کا حامل نہیں ‘ جتنا اہمیت کا حامل یہ ہے کہ اپنا اس سے گرہن کیا ہے؟۔

میں خود کی پوجا میں میں مصروف رکھوں ‘ مندر جاتا رہوں مگر بھگوان نے جو مجھے ہدایت دی ہے اس پر عمل نہ کروں تو یہ کیسادھرم ہوا؟۔

اصلی ہندو وہ ہے جودھرم کی ذمہ داریوں پر عمل کرے۔

اگر وہ پوجا کرنے او رمندر جانے کے بعد بھی دھرم میں کا خیال نہیں کررہے تو اس کو میں ہندو نہیں مانتا۔

کچھ لوگ ایسی ہے جو ہندو دھرم کے ٹھکیدار ہونے کا دعوی کرتے ہیں‘ لیکن دھرم کے ایک حصہ پر بھی عمل نہیں کرتے۔

یہ ہندوتوا نہیں ہے یہ (دنگا) فساد ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ 2014کے بعد ملک میں ہندوتوا کا زور ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 2014کے بعد ( دنگا) فساد بڑھا ہے۔

سال2019آگیا ہے ۔ اگلے مہینہ تک انتخابات کی تاریخیں اجائیں گی۔ کیا سیاسی تصویر بنتی آپ دیکھ رہے ہیں؟۔

مودی حکومت کا گراف دن بہ دن گر رہا ہے ۔ سونامی ائی تھی‘ وہ بربادی کے نشان چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ ایسے 2019میں ہونے والا ہے ۔

مودی جی نے جو خواب ملک کی عوام کو دیکھائیں ہیں وہ پورے نہیں ہوئے ۔

یہ بھی کہاتھا کہ جب تک کسانوں کا ان کا حق نہیں دلائیں گے‘ سوئیں گے نہیں۔اس وقت لوگوں کایہ محسوس ہوا کہ ایک مسیحا آگیاہے جس صرف کام کرے گا۔

آج پانچ سال پورے ہونے کو ہیں ‘ لوگوں کو اتنا تو سمجھ میںآنے لگا ہے کہ یہ نہ تو مسیحا ہے اور نہ ہی کام کرنے والا ہے ۔ بس بولتے بہت ہیں۔

کیایہ مانا جاسکتا ہے کہ کانگریس میں تمام اپوزیشن کی قیادت کرنے کا حوصلہ آگیاہے؟۔

یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کانگریس بہت کمزور ہے۔ ایسا ہی 2004میں بھی ثابت کیاگیاتھا۔ تب بی جے پی تو اپنے واپسی کا اتنا بھروسہ تھا وقت سے پہلے الیکشن کرلیا‘ لیکن بی جے پی ایسی گئی تھی کہ دس سال تک واپس نہیں ہوئی۔

ایسا اس بات بھی ہوگا۔ پانچ ریاستوں میں الیکشن نتیجے سے بہت کچھ صاف ہو گیا ہے۔کانگریس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

یوپی اور بہار سے نتیجے طئے ہونا ہے ۔ یوپی میں ایس پی ‘ بی ایس پی نے طئے کرلیا ہے کہ وہ متحد ہوکر لڑیں گے۔ وہیں بی جے پی کی شکست یقینی ہے۔

بہار میں ہمارے اتحاد ہے اور وہا ں بھی بی جے پی کے لئے مشکل ہے۔

اندرا گاندھی‘ راجیو گاندھی‘ سونیاگاندھی کے بعد راہول کی قیادت میں آپ کس طرح کا فرق دیکھتے ہیں؟۔

کانگریس میں جو نئی لیڈرشپ ابھر کر ائی ہے ‘ وہ خود کو نوجوانوں سے جوڑ رہی ہے ۔

راہول گاندھی جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کا یوتھ خود راہول سے جڑ پاتا ہے۔

دوسری بات جو انہوں نے مسائل اٹھائیں ہیں‘ چاہے وہ سوٹ بوٹ کی سرکاری کا معاملہ ہو کسان او رچھوٹے کاروباریوں کا مسئلہ ہو‘ دیس کی خواتین یا پھرد یش کا پسماندہ سماج کی بات ‘ ان تمام موضوعات پر ملک راہول گاندھی سے جڑ رہا ہے۔

ملک کی عوام کو اب سمجھ آگیا ہے کہ حکومت نہ تو جملوں سے چلتی ہے اور نہ ہی حملوں سے چلتی ہے۔ کانگریس کے جو بھی سابق صدور رہیں ‘ انہیں اس طرح کے سیاسی حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ‘ جیسے راپول گاندھی کو کرنا پڑ رہا ہے۔

مودی دور کے شروعات کے بعد کانگریس کے لئے مشکلوں کا دور شروع ہوا ‘ اس کی کیاوجہہ ہے؟

ہم کسی بھی طرح کے دباؤ میں ہیں اور نہ تو مشکل دور میں۔ رہی بات ای ڈی ‘ سی بی ائی‘ سی بی ڈی ٹی او راین ائی اے کی تو انہوں تو یہ لوگ ہر ایک کے پیچھے لگا رہے ہیں‘ لیکن ہم ڈرنے والے لوگ نہیں ہیں ۔ سنگھرش کررہے ہیں ۔

لوگوں کے سامنے ہمیں کمزور دیکھانے کی ایک پروپگنڈہ ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ یہ سار ے کام وہی کرتے ہیں جو خود اندر سے ڈرے ہوئے اور کمزور ہوتے ہیں۔

کانگریس پارٹی راہول کو وزیر اعظم کے چہرے کے طور پر پیش کرنے سے کیوں بچ رہی ہے؟کیاکانگریس کو علاقائی پارٹی کا کوئی لیڈر وزیراعظم کی شکل میں قابل قبول ہوگا؟۔

وزیراعظم امیدوار کے طور ھر کسی کو سامنے رکھنے کاسوال ہی نہیں ہے؟یہ لڑائی عوام بمقابلہ مودی ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کا اور سو وزیراعظم عہدے کے امیدواروں ہے تو جب ہم اقتدار میں ائیں گے‘ تب آپس میں ملک کر طئے ہوگا کہ کون لیڈر ہوگا۔