زہر کو قندق سمجھنے کی نہ غلطی کیجئے۔ عبیداللہ خان اعظمی

گذشتہ کچھ برسوں میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بعض مفاد پرست عناصر کی اس آگ کو ہوادینا ہے
گوکہ میں آج گجرات کے اسمبلی الیکشن کے نتائج پر کچھ عرض ومعروض کرنا چاہتاتھا لیکن بعد میں نے یہ ارادہ کیاکہ گجرات میں جس طرح بی جے پی ‘ آر ایس ایس اور اس کے ہم نوا طاقتوں نے فرقہ وارایت کا شرمناک مظاہرہ کیاہے اس کی کنڈلی کھنگالی جائے اور یہ پتہ کیاجائے کہ زیرہندوستانی معاشرے کی رگوں میں کیسے اترا اور اس زہریلی فصل کے پیچھے کے چہروں نے کیسے نقاب پہن کر ہماری مشترکہ تہذیب او رگنگا جمنی روایات کو پارہ پارہ کیاہے۔

ہندوتان میں گذشتہ کچھ برسوں میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے اور س کی بنیادی وجہہ بعض مفاد پرست عناصر کااس آگ کو ہوادینا ہے ۔

پہلے فرقہ پرستی کے جراثیم شہروں میں ہی پائے جاتے تھے لیکن ان دنوں یہ دیہی علاقوں کو بھی اپنی زد میں لے چلے ہیں ۔ آپ اگر اس کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو یہ بات سامنے ائے گی کہ فرقہ واریت کے جذبات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے پرتشدد واقعات شہروں میں ہی زیادہ ہوا کرتے تھے گاؤں دیہات میں خال ہی خال اس کی نوعیت کا کوئی معاملہ سراٹھاتاتھا۔ اب یہ ڈرتو ڈر اس بات کا ہے کہ نفرت کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا یاباالفاظ دیگر یونہی جاری رکھا گیا تو آنے والے دنوں میںیہ سنگین واقعات کاسبب بن سکتے ہیں او روسیع پیمانے پر خون خرابہ کی واردات رونما ہوسکتی ہے ۔

سنہ1857سے قبل متحدہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں کسی قسم کے فرقہ پرستانہ جذبات نہیں تھے۔ہندواو رمسلمانوں کے درمیان گوکہ بعض اختلافات ضرور تھے تاہم ان میں ایک دشمنی یا فرقہ وارانہ عدوات کا رنگ شامل نہیں تھا۔ ہندو طبقہ عید ‘ بقرعید اور محرم میں شریک ہوکر مسلمانوں سے خیرسگالی کا اظہار کرتے تھے تو مسلمان ہولی دیوالی اور دوسرے ہندوانہ تہواروں میں شامل رہتے تھے اور دونوں ہی طبقوں کے درمیان ایک بردارنہ رشتہ قائم تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے ڈھیروں برسوں میں ہندوستان کے ان دواکثریتی مذاہب کے پیروکاروں کے مابین عدوات او رشک وشبہ کی فضا کیسہ وجود میں ائی ۔

آزادی کی جنگ کے دوران ہی زعفرانی تحریک جو دراصل اٹلی او رجرمنی کی نازی سوچ کو اپنا کر آریائی نسل کی برتری اور کٹر ہندوتوا کی اشاعت کے لئے معرض وجود میں ائی تھی‘ اس نے ہندو مسلم نااتفاقی او ران دنوں قوموں کو ایک دوسرے سے لراکر اپنی سیاسی روٹیاں سیکھنے کی مہم چھیڑ دی تھی او ران کو پھلنے او رپھولنے میں آزادی کے بعد خودسکیولر کہنے والی سیاسی پارٹیو ں کے بھی نرم ہندتوا نے کافی مدد فراہم کی اور آج صورت حال اس حدتک سنگین ہوچکی ہے کہ ممبئی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں آج مسلمانو ں کو روزگار او رکرایہ پر مکان حاصل کرنے میں بھی شدید دشواریاں پیش آتی ہیں۔

جب بھی ملک کے کسی حصہ میں کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے توپولیس سے پہلے الکٹرانک میڈیا کسی مسلم تنظیم ( چاہے اس کا زمین پر کوئی وجود ہی کیوں نہ ہو)کے اس میں ملوث ہونے کا اعلان کرنا شروع کردیتی ہے او رچند مسلم نوجوانوں کے نام بھی رٹنے لگتی ہے۔

اور یہ سارا عمل اس تیوار او رطریقے سے ہوتا جیسے یہی سچائی ہو۔ہماری پولیس بھی اصل مجرموں کو پکڑنے کے بجائے نہ جانے کہاں کہاں سے مسلمانوں کو ڈھونڈ کر لے آتی ہے او ران کے ہی سر سارا الزام دھر کے اپنا کام ختم کردیتی ہے ۔ حالانکہ بیشتر ایسے معاملوں میں گرفتار شدگان پر پولیس کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہی ثابت ہوئی ہیاو رعدالتوں نے انھیں باعزت بری کردیا ہے ۔

لیکن جب تک ان کی زندگی کا اتنا بڑا حصہ جیل میں کٹ جاتا ہے کہ پھر ان کے سامنے نہ کوئی مستقبل ہوتا ہے او رنہی وہ ائندہ کے لئے کوئی منصوبہ ہی بنانے کی موقف میں ہوتے ہیں۔ اترپردیش کے مظفر نگر بلب گڑھ اور دادری میں ہونے والے واقعات او رادتیہ ناتھ ‘ سادھوی نرنجن جیوتی ‘ سادھوی پراچی وغیر ہ جیسوں کی ۔

اشتعال انگیز تقاریرسے ملک میں مسلمانوں الگ تھلگ ہوتے جارہے ہیں اور وہ یہ محسوس کرنے میں حق بجانب نظر آرہے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیاز ی سلوک روارکھاجارہا ہے۔سنہ 1857کے بعد مسلح جدوجہد ( انگریزوں نے اس کو بغاوت کا نام دیاتھااورافسوس کی ببات ہے اب تک ہم بھی اسے بغاوت سے ہی تعبیر کرتے ہیں) تو ہندواور مسلمان دنوں نے ہی شانہ بہ شانہ انگریزوں کے خلاف جنگ کی۔

بغاوت کو کچلنے کے بعد انگریزوں نے فیصلہ کیاکہ بھارت کو کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ تقسیم کرو اور اج کرو‘ ہے ۔ ہندوستان کے لئے وزیر خارجہ چارلس ووڈ نے وائس رائے لارڈ الجن کو 1872میں ایک خط لکھاکہ ’ہم نے بھارت میں اپنا اقتدار ایک برادری کو دوسری برادری کے خلاف کھڑا کرکے قائم رکھا ہے اور ہمیں اسے جاری رکھنا چاہئے۔ اس لئے ان کو ایم متحد احساس سے باز رکھنے کے لئے آپ جو کرسکتے ہیں کریں۔

جنوری14سال1887کے ایک خط میں وزیر خارجہ وسکاونٹ کر اس نے گورنر جنرل ڈفرن کو لکھا ’ مذہبی احساس کی تقسیم ہمارے مفاد میں ہے اور ہم ہندوستانی تعلیم او رتعلیمی موادپر آپ تفتیشی کمیٹی سے اچھے نتائج کی امید کرتے ہیں۔ اسی طرح وزیر خارجہ جاری ہیلمٹن نے گورنر جنرل لارڈ کرزن کو لکھا ’ اگر ہم ہندوستان کے تعلیمی یافتہ طبقے کو دوحصوں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اس سے ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی۔

ہمیں درسی کتب کو اس طرح تیار کرنا چاہئے کہ دونوں مذاہب کے اختلافات میں مزیداضافہ ہو۔ اسی طرح1857کے بعد برطانوی حکمرانوں نے دانستہ طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی پالیسی اپنائی اور اس پر کئی طرح سے عمل کیاگیا۔اپنی اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے انگریز حکمرانوں نے مذہبی رہنماؤں کی مدد لی اور ان کے ذریعہ ہندو مسلم کی تفریق کی خلیج بڑھانے کے لئے انہیں موٹی موٹی رقمیں بطور رشوت دی گئیں۔ آج بالکل اسی طرز پر آرایس ایس کے اشارے پر بھارتیہ جنتا پارٹی نفرت کی کھیتی لگانے میں جٹی ہوئی ہے اور تاریخ سے بھی چھیڑ چھاڑ کررہی ہے۔

تعلیمی موادپر بھگوا رنگ چڑھایاجارہا ہے اور عتماد کی فضاء کی جگہ شک وشبہ اور نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اگر ملک کی اکثریت اپنے اور ملک کے دورس مفاد کو نظر اندا ز کرکے یونہی مذہبی جذبات کی رو میںآکر اپنا حق رائے دہی برباد کرتی رہی تو ملک کی جمہوریت کے ساتھ ساتھ ہماری صدیوں پر انی مشترکہ تہذیب کو بھی فرقہ واریت کا اجگر نگل جائے گا۔