زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ڈاکٹر فاروق شکیل

خواجہ شوقؔ
اجمالی تعارف
نام : خواجہ حسین شریف ، قلمی نام : خواجہ شوق ، پیدائش : 29 جولائی 1924 ء ، تعلیم : علوم شرقیہ اور ادارہ فخریہ سے منشی فاضل، وفات : 15 مارچ 2011 ء، تلمیذ : مفتی اشرف علی اشرف ، صفی اورنگ آبادی ، کتابیں : ’’چشم نگراں، (شعری مجموعہ) ’’صلِ علی (نعتیہ منقبتی مجموعہ) ، تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔ ’’سلمو السلما ‘‘ (حمد نعت منقبت) کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ تلنگانہ اردو اکیڈْمی سے باوقار ’’مخدوم ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازے گئے۔
خواجہ شوق نہ صرف غزل بلکہ نعت کے بھی بے مثال شاعر تھے ۔ ان کی نعتیہ شاعری عالمی سطح پر بے حد پسند کی جاتی ہے ۔ کلام میں گہرائی اور گیرائی ہے۔ خواجہ شوق کے لب و لہجے میں زندگی کے ماتھے کی شکنیں ، عہد نو کا کرب ، یاسیت کی تلخیوں کی پرچھائیاں ہیں جسے انہوں نے بڑے شائستہ اور تیکھے انداز میں اشعار میں ڈھالا ہے ۔ خواجہ شوق نے اپنے تخلیقی شعور کو اتنی وسعت دی کہ ایک کائنات کو اپنی ذات کے اندر سمیٹ کر زماں و مکاں کی قیود سے آزاد کردیا ۔ غزلوں میں کلاسیکی مہک کے ساتھ عصر نو کی کڑواہٹ بھی ہے ، زبان و بیان کی دلآویزی ، انداز کا بانکپن اور حقیقتوں کا عرفان بھی ہے ۔ خواجہ شوق نے نعت گوئی میں توکمال ہی کردیا اور یہ کمال انہیں حبیبؐ کبریا کی محبت سے حاصل ہوا ۔ ان کے ذہن و دل میں آٹھوں پہر حبِ نبیؐ کے چراغ روشن رہتے تھے جن کی روشنی نے ان کی نعتوں کو منور کردیا ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں اردو کی بستیاں ہیںاور عاشقان رسولؐ موجود ہیں وہاں وہاں خواجہ شوق کی نعتیں عقیدت سے سنی اور پڑھی جاتی ہیں۔ خواجہ شوق کا حلقۂ تلامذہ بھی وسیع ہے ۔ جن میں جلال عارف ، اظہر قادری مرحوم، اطہر شرفی ، سید شاہ ابو تراب قدیری (سجادہ نشین ہلکٹہ شریف) قاضی فاروق عارفی، ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری ، سید جنید حسینی، حافظ و جہہ اللہ سبحانی اور مسرور عابدی (مسرور عابدی ، حضرت عدیل کے انتقال کے بعد حضرت شوق سے رجوع ہوئے) قابل ذکر ہیں۔ خواجہ شوق کے تلامذہ اور چاہنے والوں نے ’’صلِ علیٰ نعت اکیڈیمی ‘‘ قائم کی جس کے تحت ہر سال پابندی سے کل ہند نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔
منتخب اشعار
اک سنت رسولؐ بھی اب تک نہ مرسکی
کیسی وفات یہ تو مسلسل حیات ہے
دو چار معجزے ہوں تو مانے کو بشر
پوری حیات سلسلہ معجزات ہے
نام پاک شہؐ طیبہ میں وہ گہرائی ہے
چار حرفوں میں خد ائی کی توانائی ہے
اپنے پاس اس کے سوا شوق رکھا ہی کیا ہے
دولت نعمت ہی پونجی ہے ہماری ساری
بڑی ٹھنڈی سزا دی وقت نے راحت پسندی کی
جو گھبراتے تھے مرنے سے وہ اب جینے سے ڈرتے ہیں
کئی ذہن رسا پردے کے پیچھے کام کرتے ہیں
وہی قابل نہیں جو لے کے خنجر سامنے آئے
آپ دیکھا کریں نہ آئینہ
ایک کے دو دکھائی دیتے ہیں
جان کر بھی اسے نہیں جانا
علم کی انتہا جہالت ہے
کسی آئین کی پابند نہیں دین ان کی
چاہتے ہیں تو خطاؤں پہ عطا کرتے ہیں
لو چراغوں کی شوق تیز کرو
رُخ بدلنے لگی ہوا اپنا
کبھی اشک چمکے کبھی درد چمکا
وہ کرتے ہیں کس کس ادا سے اشارے
شوق زنجیرِ عناصر مجھے کیا روکے گی
حکم کی دیر ہے زنداں سے رہا ہونے کو
غزل
ان کے اندازِ کرم خاص ہوا کرتے ہیں
دل بڑھانا ہو تو دل توڑ دیا کرتے ہیں
آرزوؤں کے بھی کیا کھیل ہوا کرتے ہیں
نقش بنتے ہیں اُبھرتے ہیں مٹا کرتے ہیں
اُن کا منشا ہے جسے وقت کہا کرتے ہیں
ورنہ حالات بھی انسان کو کیا کرتے ہیں
ہوش کی سانس بھی کھل کر نہیں لی جاسکتی
لوگ کیا جان کے جینے کی دعا کرتے ہیں
وقت پڑنے پہ ہر اک آدمی کُھل جاتا ہے
آزمائش کے مقامات ہوا کرتے ہیں
زینتِ جیب و گریباں ہیں نہ زیبِ کا کل
ہم ہیں وہ پھول جو بے فصل کھلا کرتے ہیں
شوق آنسو ہی زبانِ غم و آلام نہیں
کچھ تبسم بھی یہ مفہوم ادا کرتے ہیں