ریاض میں گاندھی کی گونج

کے این واصف
سعودی عرب میں آباد غیر ملکی باشندوں میں سب سے بڑی تعداد ہندوستانی باشندوں کی ہے۔ یہاں ہم ہندوستانیوں کو بڑی مسرت محسوس ہوتی ہے جب ہم کو یہاں دیگر ممالک کے رہنے والوں پر ہمیں سعودی حکومت کی جانب سے کوئی اعزاز، اہمیت یا امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں کنگ فیصل اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سنٹر ریاض نے یہاں ’’گاندھی فورم دہلی‘‘ کی چیرپرسن مسز شوبھنا رادھا کرشنا کے ایک لکچر کا اہتمام کیا۔ یہاں یہ دیکھ کر اور بھی مسرت ہوئی کہ فیصل فاؤنڈیشن کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں وقتِ مقررہ سے قبل ساری نشستیں پُر ہوچکی تھیں۔ لکچر اپنے ٹھیک وقت پر شروع کردیا گیا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ ہال میں ایک بہت بڑی تعداد سعودی باشندوں کی تھی۔ اب تو شاید ہندوستان میں بھی گاندھی کے حوالے سے کوئی لکچر کا اہتمام ہو تو اتنی تعداد میں لوگ جمع نہ ہوں کیوں کہ اب ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں گاندھی اور ان کے عدم تشدد کے فلسفہ کو نیست و نابود کرکے ملک میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات میں عدم تحفظ اور افراتفری کا ماحول بنائے رکھنا چاہتی ہیں۔

گاندھی کے افکار میں دلچسپی رکھنے والے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شوبھنا رادھا کرشنا نے کہاکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں تشدد اور کشمکش ختم کرانے اور امن کی بحالی کے لئے مہاتما گاندھی کے افکار سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ اس کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاندھی کے عدم تشدد کے پیغام کا پرچار کرے۔ گاندھی نے زندگی بھر اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی اور اس کی خاطر اپنی جان بھی دے دی۔ فیصل سنٹر میں سفیر ہند احمد جاوید، فرسٹ سکریٹری ڈاکٹر حفظ الرحمن اور دیگر سفارت کار، اسکالرز اور انڈین کمیونٹی کے مرد و خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ شوبھنا نے توجہ دلائی کہ گاندھی جی نے ماحولیات، اقتصادیات اور تعلیم کے شعبوں پر بھی توجہ مرکوز کی۔ ان کی خدمت کا دائرہ سیاست تک محدود نہیں تھا۔ ان کی پختہ سوچ یہ تھی کہ بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح کے کام کئے جائیں۔ ناخواندگی اور نسل پرستی کو مٹایا جائے۔ عصر حاضر میں دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے باوجود بہت سارے چیلنج درپیش ہیں۔ ہمیں دنیا بنانے، سنوارنے کے لئے عدم تشدد کی پالیسی اپنانی ہوگی۔

شوبھنا نے اپنے کوئی دو گھنٹے طویل لکچر میں یہ بھی کہاکہ گاندھی مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کا پابندی سے مطالعہ کرتے تھے جس میں قرآن اور سیرت النبی ﷺ بھی شامل تھے۔ وہ اسلام کو امن کا مذہب اور قرآن کو امن کے درس کی کتاب مانتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ گاندھی آشرم میں ہر روز شام جو بیٹھک ہوتی تھی اس کی ابتداء سورہ فاتحہ اور سورہ قُل سے ہوتی تھی۔ انھوں نے کہاکہ گاندھی آشرم میں سادگی سے جینا، انسانی خدمت اور امن کا درس دیا جاتا تھا۔ انھوں نے کہاکہ گاندھی مسلمانوں اور مسلم قائدین سے بڑے قریبی اور دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ نیز گاندھی نے اپنی زندگی میں دنیا کے بے شمار قائدین کو اپنے افکار سے متاثر کیا اور یہ سلسلہ بعد ازمرگ بھی جاری ہے۔ گاندھی نے تین براعظموں میں کام کیا اور ساؤتھ افریقہ میں مقیم ہندوستانیوں کو عزت اور حقوق دلانے کی جدوجہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر گاندھی کی 150 ویں جینتی منائی جارہی ہے۔ عدم تشدد کا پرچار ان کی زندگی کا مقصد تھا اور یہی ان کی طاقت بھی۔ انھوں نے عدم تشدد کے اُصولوں پر ہی آزادی کی جدوجہد کی اور انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ گاندھی کی تعلیمات اور افکار آج کے دور میں بھی معتبر اور قابل عمل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں گاندھی کے افکار اور تعلیمات کو اپنائے تو دنیا میں امن کا بول بالا ہوجائے گا۔
مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم پیدائش کا جشن 2 اکٹوبر (منگل) کو سفارت خانہ ہند میں شاندار پیمانے پر منایا گیا جس میں مختلف ممالک کے سفیروں، سفارتکاروں، اسکالرز اور انڈین کمیونٹی کے مرد و خواتین نے شرکت کی۔ اس تقریب کی قابل ذکر یا خاص باتیں یہ تھیں کہ اس میں سعودی فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں سعودی آرٹسٹ نادیہ الیوسف کا بنائے گئے گاندھی Portrait کی رسم رونمائی عمل میں آئی اور دوسرے ایک سعودی فنکار احمد المیمنی نے گاندھی کے آشرم میں گایا جانے والا معروف بھجن ’’ویشنو وجنکو…‘‘ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ اس طرح دو سعودی فنکاروں نے گاندھی جی کو اپنا خراج عقیدت پیش کیا۔

ابتداء میں فرسٹ سکریٹری سفارت خانہ ہند ڈاکٹر حفظ الرحمن نے مہمانوں کا رسمی طور پر خیرمقدم کیا جس کے بعد سفیر ہند احمد جاوید نے محفل کو مخاطب کیا۔ انھوں نے کہاکہ آج ساری دنیا میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کا 150 واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔ 2 اکٹوبر کو اقوام متحدہ نے بھی ’’یوم عدم تشدد‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ احمد جاوید نے کہاکہ عدم تشدد کا پرچار گاندھی کی زندگی کا مشن اور مقصد تھا۔ انھوں نے کہاکہ عدم تشدد پر عمل آوری کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی گاندھی کے دور میں تھی۔ عدم تشدد گاندھی جی کی طاقت بھی تھی اور اسی طاقت کے ذریعہ انھوں نے آزادی کی لڑائی جیتی۔ اس موقع پر سفیر ہند احمد جاوید نے سعودی آرٹسٹ نادیہ الیوسف کا بنایا گاندھی جی کے Portrait کی رسم رونمائی بھی انجام دی اور گاندھی کی 150 ویں جینتی پر جاری خصوصی ڈاک ٹکٹ کی رسم اجراء انجام دی۔ احمد جاوید نے سعودی آرٹسٹ کو ایمبیسی کی جانب سے یادگاری مومنٹوز بھی پیش کئے۔ آخر میں انٹرنیشنل انڈین اسکول دمام کے طلباء و طالبات گاندھی کی حیات اور افکار پر مبنی ایک ڈرامہ بھی پیش کیا۔ گاندھی جینتی کی مناسبت سے دبئی کے معروف اور طویل ترین ٹاور ’’برج الخلیفہ‘‘ کو ہندوستان کے قومی ترنگے کے رنگوں کی روشنی سے منور کیا گیا اور اس پر گاندھی کا Portrait بھی دکھایا جارہا تھا۔ نیز گاندھی کے مشہور بھجن ’’ویشنو وجینکو…‘‘ کی دھن بھی بجائی جارہی تھی جس سے ایک بہترین سما بندھ گیا تھا۔
مہاتما گاندھی نے اپنے افکار اور تعلیمات سے نہ صرف ہندوستانیوں کو بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے قائدین اور عوام کو متاثر کیا۔ جس کا ذکر مسز شوبھنا رادھا کرشنا چیرپرسن نے ریاض میں دیئے گئے اپنے ایک لکچر میں کیا تھا۔ گاندھی کی 150 ویں یوم پیدائش کا جشن دنیا کے کئی ملکوں میں منایا گیا اور خود اقوام متحدہ نے گاندھی کی تاریخ پیدائش کو ’’یوم عدم تشدد‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا جس سے دنیا میں گاندھی کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن جب ہم خود اپنے ملک ہندوستان پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ وہی ہندوستان جہاں گاندھی جیسے امن پسند اور عدم تشدد کا درس دینے والے کا قتل کردیا گیا جبکہ ہندوستان جسے آزاد ہوئے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا۔ وہ ہندوستان جس کی آزادی کی جدوجہد کے لئے گاندھی جی نے اپنی زندگی وقف کردی اور اُسے آزاد ہندوستان میں سال بھر جینے نہیں دیا گیا۔ وہ ہندوستان جہاں گائے کو ’’ماں‘‘ تصور کیا جاتا ہے وہیں ’’بابائے قوم‘‘ کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ وہ ہندوستان جہاں صدیوں سے رواداری اور بھائی چارگی کا بول بالا رہا ہے وہاں صرف کچھ فکری اختلاف کی بنیاد پر محسن قوم کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ سب سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ گاندھی کی جنم بھومی (جائے پیدائش) آج تشدد کی فیاکٹری بن گئی ہے جہاں تشدد کے انسانیت سوز تجربے کئے گئے اور آج سارے ملک میں وہی تجربے دہرائے جارہے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں انسانیت کے نام پر دھبہ کہا جاسکتا ہے انھوں نے تشدد اور نفرت پھیلانے کے اپنے مشن کو منظم طریقہ سے معصوم عوام کے ذہن نشین کرایا کہ گاندھی جی کے عدم تشدد کے سبق کا اثر زائل ہوگیا۔ نتیجتاً آج گلی گلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ شرپسند اور غنڈہ عناصر ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ہیں۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ ملک کو پھر ایک گاندھی کی ضرورت ہے جو ملک پر چھائے خوف، نااُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں میں اُمید کی کرن بن کر اُبھرے۔
knwasif@yahoo.com