رُک سکتے ہیں فنکار قلم رُک نہیں سکتے

عوام کی آواز اٹھانے پر روش کمار کو دھمکیاں
پرنب مکرجی میں چھپا سیویم سیوک جاگ اٹھا

رشیدالدین

صحافیوں اور جہد کاروں کو حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ دباؤ یا پھر مفادات کے تحت بعض صحافی اور جہد کار حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے حقائق کو بیباکی کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو صحافی اور جہد کار دباؤ کو قبول نہیں کرتے، انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ جہد کاروں اور صحافیوں کو دھمکیوں اور ہراسانی کا رجحان دنیا بھر میں عام ہوچکا ہے۔ ہندوستان میں بیشتر میڈیا گھرانے کسی نہ کسی پارٹی کے حمایتی رہے ہیں لیکن 2014 ء میں بی جے پی اقتدار کے بعد سے حق اور سچائی کی آوازوں کو کچلنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا و جہد کار سماج میں واچ ڈاک کی طرح ہیں۔ اگر حکومت اور نظم و نسق دیانتدار ہو تو نشاندہی کردہ حامیوں اور کوتاہیوں کو قبول کرتے ہوئے اصلاح کی فکر کی جاتی ہے۔ مرکز میں حکمراں پارٹی بی جے پی کا معاملہ ہی مختلف ہے۔ میڈیا اور سماجی جہد کاروں کو وہ بھجن منڈلی کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔ عدم برداشت اور عدم رواداری کے جذبہ نے انتقامی کارروائیوں کو جنم دیا ہے، جس سے قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ہندوستان میں جمہوریت کے باوجود حکمراں طبقہ ڈکٹیٹرشپ کی طرح کسی مخالف آواز کو سننے تیار نہیں۔ حالیہ عرصہ میں جہد کاروں اور صحافیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ۔ 1992 ء سے اب تک 47 سے زائد صحافیوں کے قتل کے واقعات پیش آئے۔ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن اس کی اہمیت ان کیلئے ہوگی جنہیں جمہوریت پر ایقان ہو۔ دستور اور جمہوریت کے تحفظ کا کوئی حلف لے لیکن طرز حکمرانی مطلق العنانی کی طرح ہو تو ان سے صحافت کے احترام کی توقع کرنا فضول ہے۔ نریندر مودی کا کچھ ایسا جادو چلا کہ اکثر میڈیا گھرانے نمو نمو کا بھجن کرنے لگے۔ چینل کھولتے ہی حکومت کے کارناموں اور مودی گن گان شروع ہوجاتا ہے۔ میڈیا گھرانوں نے حکومت کے عوام دشمن فیصلوں کو بھی کارنامے کے طور پر پیش کیا ہے۔ مودی نواز چینل عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اپنے اصولوں اور ضمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایمرجنسی میں بھی صحافت اور جہد کاروں پر اس قدر کنٹرول نہیں تھا، جتنا آج مودی حکومت میں ہے۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے میڈیا کا سہارا لیا گیا ۔ اتنا ہی نہیں کوبرا پوسٹ کے اسٹنگ آپریشن میں مودی نواز کئی اخبارات اور چینلس رقم کے عوض فرقہ وارانہ نوعیت کی خبریں عام کرنے کیلئے راضی ہوگئے ۔ بیباک صحافت کو ہر دور میں آزمائش کا سامنا رہا۔ کبھی کم کبھی زیادہ لیکن دباؤ بہرحال برقرار ہے۔ حالیہ عرصہ میں NDTV نیوز چینل مودی حکومت کے نشانہ پر ہے۔ چینل کے سربراہ کی قیامگاہ پر دھاوا کیا گیا۔ اسی چینل سے وابستہ روش کمار کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں دھمکیوں کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ غیر جانبدار رپورٹنگ اور حقائق کو پیش کرنا اس صحافی کا قصور ہے۔ پیشہ صحافت کے اصولوں پر کاربند رہنے کے بجائے حکومت کو بھجن منڈلی طرز کی صحافت چاہئے ۔ گجرات کے بدترین فسادات کے کوریج پر راج دیپ سر دیسائی اور برکھا دت کو بھی ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ روش کمار جو ہمیشہ حکومت کو آئینہ دکھاتے ہیں جو حکمرانوں کو برداشت نہیں، ان کی بیباکی اور عوام کی آواز اٹھانا حکومت کو برا معلوم ہوتا ہے۔ عدم رواداری، گاؤ رکھشا اور لو جہاد کے نام پر معصوموں کی ہلاکتوں کو روش کمار نے دلیری اور غیر جانبداری کے ساتھ پیش کرتے ہوئے اپنے پیشہ کے ساتھ انصاف کیا۔ حکومت کو یہ منظور نہیں تھا کہ جارحانہ فرقہ پرست تنظیموں کو بے نقاب کیا جائے۔ روش کمار کو قتل کی دھمکیوں سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ دیگر چینلس روش کمار کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اس مسئلہ سے خود کو علحدہ کرچکے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ظلم اور جبر کے ساتھ حق کی آواز کو کچھ وقفہ کیلئے ضرور دبایا جاسکتا ہے لیکن ظلم کی حکمرانی مختصر ہوتی ہے۔ بیباک اور حق گو صحافیوں کے ساتھ انتقامی رویہ جمہوریت کے مغائر ہے۔ جمہوریت جب کمزور ہوگی تو عدلیہ مقننہ اور عاملہ بھی اس کے اثر سے بچ نہیں پائیں گے۔ جمہوریت اور انصاف پسند طاقتوں کو روش کمار کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر حکومت کی ڈکٹیٹرشپ کو روکا نہیں گیا تو عوام کے حق میں آواز اٹھانے کیلئے کوئی نہیں رہے گا۔ صحافیوں اور ان کی تنظیموں کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے آزادی صحافت کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہونا پڑے گا۔ روش کمار نے وزیراعظم نریندر مودی کو کھلا مکتوب روانہ کیا لیکن حکومت بے حسی کا شکار ہے۔
’’میں آج یہاں مادر ہند کے ایک عظیم ثبوت کی تعظیم اور انہیں خراج پیش کرنے کیلئے آیا ہوں‘‘۔ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیٹرس بک میں یہ الفاظ تحریر کئے ۔ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں سیوم سیوکوں سے خطاب سے قبل سابق صدر جمہوریہ نے ہیڈگیوار کے پیدائشی مقام کا دورہ کیا اور ان کے مجسمہ پر پھول نچھاور کئے ۔ پرنب مکرجی نے وہاں وزیٹرس بک میں جو الفاط تحریر کئے ہیں، اگرچہ روایتی طرز کے ہیں لیکن جس شخصیت کیلئے یہ الفاظ استعمال کئے گئے،

اس پر اعتراض ضرور ہوگا۔ ہیگڈیوار کی تعریف اور وہ بھی پرنب مکرجی کے قلم سے یہ حیرت انگیز ہے۔ پرنب مکرجی نے دراصل اپنے 50 سالہ سیکولر کیریئر کے خاتمہ کا اعلان کردیا۔ آرایس ایس کی دعوت پر ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنا ہی غلط ہے، اس پر تنظیم کے سربراہ کو مادر ہند کا عظیم سپوت قرار دینا دراصل پرنب مکرجی کی نئی اننگز کا آغاز ہے۔ ساری زندگی سیکولر نظریات کے ساتھ گزارنے اور ملک کے اعلیٰ ترین دستوری عہدہ پر فائز ہونے کے بعد عمر کے اس حصہ میں پرنب مکرجی نے نظریات سے انحراف کرلیا۔ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کے ایونٹ میں شرکت اور ہیڈگیوار کو خراج نے عوام میں کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ کانگریس میں رہ کر کل تک آر ایس ایس کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ آر ایس ایس پر امتناع کے وقت پرنب مکرجی حکومت کے فیصلہ میں شامل رہے لیکن آج آر ایس ایس کے بانی کو جس انداز میں خراج پیش کیا ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کا کونسا نظریہ درست ہے۔ آر ایس ایس انگریزوں کی ایجنٹ تھی ، وہ بیان درست تھا یا آج اس ایجنٹ تنظیم کے سربراہ کو عظیم سپوت قرار دینا درست ہے۔ صرف ایک لفظ کے ذریعہ پرنب مکرجی نے ایک ایسی تنظیم کو حب الوطنی کی سند عطا کردی جسے دستور پر اعتبار نہیں اور جو تنظیم ہندو راشٹر کے قیام کی تیاری کر رہی ہے ۔ کیا پرنب مکرجی سیاسی جماعتوں میں موجود بعض دیگر قائدین کی طرح چھپے ہوئے سیوم سیوک ہیں جس کا اظہار انہوں نے ہیڈگیوار کے مجسمہ کے روبرواس کا اقرار کیا ۔ کانگریس پارٹی جو پرنب مکرجی کو آر ایس ایس ہیڈکوارٹر جانے سے روکنے میں ناکام ہوچکی ہے، اپنا امیج بچانے کیلئے پرنب مکرجی کی تقریر کا سہارا لے رہی ہے جس میں انہوں نے آر ایس ایس اور اس کے نظریات کی تائید کے بجائے امن ، بھائی چارہ ، رواداری ، سیکولرازم کا درس دیا ۔ تقریر بھلے ہی کچھ ہو لیکن ہیڈگیوار کو خراج پیش کرنے کے بعد اس کی اہمیت ثانوی ہوچکی ہے۔ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں پرنب مکرجی نے جو پیام دیا ، وہ کوئی کارنامہ نہیں۔ نریندر مودی جو پیدائشی سیویم سیوک ہیں، وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ان کی زبان سے ہندوتوا کی نہیں سیکولرازم کے الفاظ نکل رہے ہیں جو کہ ان کی مجبوری بھی ہے۔ پرنب مکرجی کی دختر نے صحیح کہا تھا کہ لوگ تقریر بھول جائیں گے لیکن تصاویر اور ویڈیو یادگار کے طور پر باقی رہ جائیں گے۔ پچاس برسوں کے سرگرم سیاسی کیریئر میں پرنب مکرجی جن نظریات کے حامل رہے، اس سے انحراف اور آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں جانا محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر ہی قدم اٹھایا ہوگا۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ سے سبکدوشی کے بعد وہ شناخت کے بحران کا شکار ہوگئے اور آر ایس ایس کی شاخوں میں سکون تلاش کر رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پرنب مکرجی 2019 ء میں آر ایس ایس کی مدد سے وزارت عظمی کیلئے قابل قبول امیدوار کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں۔ اگر آر ایس ایس کے بانی ملک کے عظیم سپوت ہیں تو پھر کانگریس نے اس تنظیم پر پابندی عائد کیوں کی تھی اور تنظیم کو انگریزوں کے ایجنٹ کیوں کہا ؟ کیا پرنب مکرجی آر ایس ایس کے بارے میں اپنے تمام خیالات کو واپس لیں گے ؟ اگر کل کسی دن گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کے حامی مدعو کریں تو کیا پرنب مکرجی ناتھورام گوڈسے کو مادر ہند کا عظیم سپوت قرار دیں گے ؟ جس طرح ہیڈگیوار کی جنم بھومی کے درشن کئے، کوئی عجب نہیں، پرنب مکرجی مبینہ رام جنم بھومی کا بھی درشن کریں۔ کیا کبھی آر ایس ایس نے ملک کے قومی قائدین کو عظیم سپوت قرار دیا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ گاندھی جی ، پنڈت جواہر لال نہرو سے اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی تک بھی آر ایس ایس کو پسند نہیں۔ پھر کس طرح پرنب مکرجی نے آر ایس ایس کے بانی کو عظیم سپوت قرار دے دیا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کے دورہ کے بعد سیویم سیوکوں کی نظر میں پرنب مکرجی مادر ہند کے عظیم سپوت بن چکے ہیں۔ آر ایس ایس نے اپنی تاریخ میں کبھی قومی پرچم نہیں لہرایا اور پرنب مکرجی کی موجودگی میں صرف تنظیم کا پرچم لہرایا گیا لیکن سابق صدر جمہوریہ کی پیشانی پر بل نہیں آیا ۔ جو تنظیم دستور کو نہیں مانتی ، دستوری عہدہ پر فائز شخص ان کی دہلیز پر پہنچ گیا۔ منور رانا نے ملک کے حالات پر کیا خوب کہا ہے ؎
اے اہل سیاست یہ قدم رک نہیں سکتے
رک سکتے ہیں فنکار قلم رک نہیں سکتے