رواں صدی کا مجاہدِ اردو …

محمد جلیل پاشاہ

محمد عارف الدین احمد
گزشتہ صدی میں جہاں سر سید احمد خان نے تعلیم کو عام کرنے اور خصوصاً خواتین کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے اور عوام میں خود شناسی اور خود اعتمادی کے احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کی وہیں زبانِ اردو کو پروان چڑھانے کی مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں بھی اپنی صلاحیتوں اور جہد مسلسل کا بھرپور مظاہرہ کیا اور بالآخر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بناکر ہی چین کی سانس لی۔
بالکل اسی طرح موجودہ صدی میں ایک اور مجاہد اردو نے اردو کی ترقی ، ترویج اور اردو ذریعہ تعلیم کو عام کرنے اور خصوصاً طالبات کو بھی اردو ذریعہ تعلیم کی طرف راغب کرنے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حالیہ صدی میں اس مجاہدِ اردو نے جو کارنامے انجام دیئے اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ نصف صدی میں اردو سے بے اعتنائی اور مخالفت کے باوجود تن تنہا شخص نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ بیسویں صدی کی اردو تاریخ میں رقم کئے جائیں گے ۔ محمد جلیل پاشاہ کی اردو زبان سے دلچسپی ، تعلیمی خدمات اور کارناموں کا تفصیلی جائزہ لیں تو یقیناً ان کی گرانقدر خدمات کے پس منظر میں موجودہ صدی کے سر سید احمد خان کی حیثیت سے ان کا نام ضرور یاد رکھا جائے گا ۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ محمد جلیل پاشاہ تلگو میڈیم کے طالب علم تھے اور اردو زبان و ادب سے نابلد تھے ۔ ا س کے باوجود اردو سے ان کی بے پناہ محبت اور اردو خدمات کا جذبہ مثالی ہے۔
جلیل پاشاہ 14 نومبر 1948 ء کو موضع ویلمڈی ، ضلع ورنگل میں پیدا ہوئے اور یہیں تلگو ذریعہ تعلیم سے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ 1968 ء میں گورنمنٹ جونیئر کالج ، بازار گھاٹ میں پی یو سی تک تعلیم حاصل کی اور انوارالعلوم ڈگری کالج ، ملے پلی میں بی اے کی تکمیل کی ۔ انہوں نے اپنی رہنمایانہ صلاحیتوں کی بدولت انوارالعلوم ڈگری کالج ملے پلی میں دو مرتبہ اسٹوڈنٹس یونین کے 1972 ء سے 1974 ء تک صدر منتخب ہوئے اور اسٹوڈنٹس لیڈر کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی ۔ مولانا سید خلیل اللہ حسینی صدر تعمیر ملت اور پرنسپل انوارالعلوم کالج کی رہنمائی میں 1983 ء میں کل ہند اردو تعلیمی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے وہ تاحیات صدر برقرار رہے ۔ 1969 ء میں تلنگانہ و دھیارتی سمیتی (T.V.S) کے صدر منتخب کئے گئے ۔ علحدہ تلنگانہ تحریک جسے ڈاکٹر ایم چنا ریڈی نے شروع کی تھی ، اس تحریک میں محمد جلیل پاشاہ نے نمایاں حصہ لیا اور اپنی بے باکانہ سرگرمیوں کی بناء پر ریاست میں مقبولیت حاصل کی ۔ اس تحریک کے سلسلے میں انہیں (22) مرتبہ جیل بھیجا گیا اور وشاکھاپٹنم کے جیل میں رکھا گیا ۔
1977 ء میں کانگریس کی طلباء تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین (NSUI) کے ریاستی صدر منتخب ہوئے اور انہیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (دہلی) کارکن بھی نامزد کیا گیا۔
ان کے کارناموں اور نمائندگیوں کا احاطہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی مؤثر نمائندگیوں کے ذریعہ بہت سے مطالبات کو حکومتوں سے منظوری دلائی ۔
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش 11 نومبر کو ’’یوم قومی تعلیم‘‘ کی حکومت ہند سے منظوری دلوائی ۔ انہوں نے دہلی اور حیدرآباد میں جملہ (37) کل ہند کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا ۔
محمد جلیل پاشاہ نے اپنی بھرپور نمائندگیوں کے ذریعہ مہاتما گاندھی گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ، گورنمنٹ جونیئر کالج فار گرلز (نامپلی) اردو ، تلگو اور انگلش میڈیم میں قائم کروائے ۔ اس کے علاوہ (M.A.M) مولانا آزاد میموریل ماڈل جونیئر کالج فار گرلز ( اردو میڈیم) اندرا پریہ درشنی گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کالج نامپلی کا قیام عمل میں لایا ۔
1990 ء میں چیف منسٹر ایم چنا ریڈی نے بارہویں کل ہند اردو کانفرنس کے موقع پر جوبلی ہال میں محمد جلیل پاشاہ کیلئے اے پی ، اردو اکیڈیمی کے صدر کے عہدہ کا اعلان کیا اور وہ 1990 ء تا 1992 ء اردو اکیڈیمی کے صدرنشین کی حیثیت سے عہدہ پر فائز رہے ۔ 2009 ء میں صدرنشین اردو اکیڈیمی مولانا رحیم الدین انصاری کے دور میں انہیں فروغِ اردو کیلئے کارنامہ حیات ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
جلیل پاشاہ نے 1983 ء میں حلقہ یاقوت پورہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا ۔ اردو اکیڈیمی اے پی کے چیرمین شپ کی میعاد میں ورنگل میں اردو بھون کا قیام عمل میں لایا ۔ اس کی افتتاحی تقریب میں ریاستی وزراء ڈاکٹر پی وی رنگا راؤ (ریاستی وزیر تعلیم) نرسمہا ریڈی وزیر بلدی نظم و نسق ، میونسپل چیرمین پرساد راجو (ورنگل ) نے شرکت کی ۔ اس تقریب کے انعقاد میں ڈاکٹر انیس صدیقی ( ہنمکنڈہ ) نے بھرپور معاونت کی۔
جلیل پاشاہ نے اردو تعلیمی خدمات کے علاوہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں راج بھون ، جوبلی ہال اور نامپلی گرلز جونیئر کالج میں اردو مشاعروں کا انعقاد بھی عمل میں لایا جس میں حیدراباد کے ممتاز شعراء کرام مسرز سعید شہیدی ، صلاح الدین نیر، رئیس اختر ، شفیع اقبال ، مومن خاں شوق، اثر غوری اور دیگر شعراء کو مدعو کیا ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جس وقت وزیر فینانس تھے ، ان کی حیدراباد آمد پر خصوصی شعری نشست کا انعقاد عمل میں لاتے ہوئے ممتاز شعراء مسرز صلاح الدین نیر ، رئیس اختر، شفیع اقبال اور دیگر شعراء کو مدعو کیا ۔
جلیل پاشاہ اس قدر حوصلہ مند اور بیباک انسان تھے کہ انہوں نے وزیراعظم ہو کہ دیگر وزراء اور قائدین کسی سے بھی ملاقات کرنے اور ان کے سامنے اپنی تجاویز پیش کرنے میں کبھی بھی جھجھک محسوس نہیں کی ۔
اُن کے مشیران اور معاونین میں ڈاکٹر حسن الدین احمد آئی اے ایس ، ڈی رویندرا نائک سابق وزیر ، ڈاکٹر سی نارائن ریڈی ، سابق ایم پی ، محمود بن محمد ، آئی پی ایس ، ایس کے افضل الدین ، جنرل سکریٹری ، پردیش کانگریس کمیٹی ، محمد فصیح الدین مرحوم اسٹوڈنٹس یونین لیڈر ، ڈاکٹر سید علی ، سی وینکٹ راؤ ، کے ایم عارف الدین مدینہ ایجوکیشن سنٹر ، نورالدین حیدری ایڈوکیٹ ، ٹھاکر ہردے سنگھ ، ڈاکٹر انیس صدیقی (ہنمکنڈہ ) ، عارف الدین احمد شامل تھے ۔
محمد جلیل پاشاہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 1972 ء میں اردو یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ مرکزی حکومت کو پیش کیا ۔ اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ سے انہوں نے مؤثر نمائندگی کی اور بالآخر 1996 ء میں حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی (MANUU) کا قیام عمل میں آیا۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر شمیم جئے راجپوری نے بوقت حصول جائزہ جلیل پاشاہ کی اردو تعلیمی خدمات کے سلسلے میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی لیکن جلیل پاشاہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے پدم شری کے اعزاز کی پیشکش بھی کی تھی جسے جلیل پاشاہ نے قبول نہیں کیا ۔
بالآخر جلیل پاشاہ طویل علالت کے بعد 25 نومبر 2018 ء بروز اتوار ، رات 9.30 بجے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
28 ڈسمبر بروز جمعہ 2018 ء کو ’’اردو گھر‘‘ مغل پورہ میں ’’تنظیم تحفظ اردو ‘‘ (تلنگانہ) کے زیر اہتمام منعقدہ جلسہ تعزیت و اعترافِ خدمات بہ عنوان اردو کا جہد کار ۔ جلیل پاشاہ‘‘ کا صدر نشین تلنگانہ اردو اکیڈیمی مولانا رحیم الدین انصاری کی صدارت میں انعقاد عمل میں آیا۔ عارف الدین احمد صدر تنظیم تحفظ اردو‘‘ نے مولانا رحیم الدین انصاری سے پر زور مطالبہ کیا کہ اردو کے جہد کار جناب محمد جلیل پاشاہ مرحوم سے ’’کارنامۂ حیات ایوارڈ برائے فروغ اردو‘‘ موسوم کیا جائے۔ صدرنشین مولانا رحیم الدین انصاری نے خندہ پیشانی کے ساتھ جلیل پاشاہ سے ایوارڈ موسوم کرنے کا اعلان کیا جس پر ہال میں موجود شرکاء نے مسرت کا اظہار کیا۔
اس تعزیتی جلسہ میں جوبحیثیت مہمانانِ خصوصی شہر کی ممتاز شخصیتوں محمد مصطفیٰ علی سروری (مانو) پروفیسر مجید بیدار ، ایس کے افضل الدین جنرل سکریٹری پردیش کانگریس کمیٹی ، پروفیسر گوپال لینن ، ڈاکٹر جاوید کمال ، صحافی و شاعر شفیع اقبال ، ڈاکٹر ناظم الدین ، محترمہ عظمیٰ شاکر ، جنرل سکریٹری P.C.C نے محمد جلیل پاشاہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور دعائے مغفرت کی ۔ اس تقریب کے انعقاد میں جناب سعید احمد (نائب صدر) اور محمد عثمان جنرل سکریٹری نے بھرپور تعاون کیا ۔
بہرحال محمد جلیل پاشاہ نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کیلئے ساری زندگی وقف کردی ۔ انہوں نے کبھی دولت کمانے یا عہدے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور بے لوث خدمات انجام دیں۔ ان کی بے لوث خدمات کی وجہ سے اردو دنیا انہیں ہمیشہ ’’مجاہدِ اردو‘‘ کے نام سے یاد رکھے گی۔