رمضان میں بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں کے اندر روہنگی مسلمانوں کو مشکلات کاسامنا

کوکس بازار۔ایک بارہ سال کا روہنگی پناہ گزین اپنے گاؤں میں واپس جاکر رمضان کااہتمام کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ افطار میں مچھلی‘ گھر والوں کی طرف سے تحائف اور شام کی نماز سے قبل جھاڑیوں کے سایہ میں آرام کرنا بھی اس میں شامل ہے

۔مگر ایم ڈی ہاشم او ران کے جیسے دوسرے جو بنگلہ دیش کے اسکولر میں مقیم ہیں‘ ماہ صیام کے آغاز کے ساتھ ہی انہیں فوج سے جھڑپو ں کے بعد میانمار سے اپ سب کچھ چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہونے والی باتیں اور اس فراری میں ہوئے نقصانات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

کوکس بازار ضلع میں ہاشم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’یہاں پر تحائف ہماری رسائی سے باہر ہیں اور ہمیں بہتر غذا بھی نہیں مل رہی ہے‘ کیونکہ یہ ہمارا ملک نہیں ہے‘‘۔

اقوام متحدہ نے آرمی کی کاروائی کو نسلی صفائی قراردیا ہے اور مانا جارہا ہے کہ ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کوپچھلے سال اگست میں اس کاروائی کے تحت موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ستر ہزار کے قریب روہنگیائی تشدد کے خوف سے بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوگئے تھے ‘ جہاں پر وہ بمبو اور تارپولین کے عارضی جھونپڑیوں میں مقیم ہیں۔

وہیں ان کا ماننا ہے کہ وہ بچ کر ائے بڑی خوشی کی بات ہے ‘ اب ان کے پاس کھانے او رپیسے کی کمی ہے اور درجہ حرارت عروج پر ‘ کئی روہنگیائیوں کے لئے رمضان مشکلات لے کر آیا ہے۔

تپتی دھوپ میں ایک روز پلاسٹک کے ڈیرے میں بیٹھے ہاشم نے کہاکہ ان کے گاؤں میں رمضان سال کا سب سے بہترین وقت ہوتا ہے۔ ہر رات کو دوست او رگھر والے مچھلی او رگوشت کے پکوانوں کے ساتھ افطار کرتے ہیں جو سال میں مقدس ماہ صیام کے موقع پر پکائے جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ نئے کپڑے پیش کئے جاتے ہیں او ر عطر بھی لگایاجاتا ہے۔

ہاشم نے کہاکہ ’’ ایسا ہم یہاں پر نہیں کرسکتے‘ کیونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ہماری اپنی ذاتی کوئی زمین نہیں ہے۔ ہم پیسہ کما نہیں سکتے کیونکہ ہمیں منظور نہیں ملی ہے‘‘۔

روہنگیائیوں کو کام کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور دو درجن سے زائد ملٹری چیک پوائنٹ بنائے گئے ہیں تاکہ انہیں محدور رکھا جاسکے ‘ جس کی وجہہ سے یہ دنیا کے بڑے پناہ گزین کیمپوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔

وہ صرف امداد پر زندہ ہیں جس میں کھانے سے لے کر دوا اور کپڑے‘ گھریلو اشیاء۔ ہاشم کو ایک گھنٹہ کی پیدل مسافت طئے کرکے قریب کے مارکٹ جانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بہت سارے نوجوان روہنگیائی تپتی دھوپ میں کیمپ کے اندر کھانے او رپینے کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ہاشم نے کہاکہ’’ ہم برما میں جس طرح روز ے رکھتے ہیں یہاں پر نہیں رکھ پارہے ہیں کیونکہ یہاں پرگرمی بہت ہے۔ اور یہا ں پر درخت بھی نہیں ہیں۔

سورج جب نیچے آتا ہے تو ڈٹارپولین اور بھی گرم ہوجاتا ہے ۔ ہمارے لئے بہت مشکل ہے‘‘۔کئی بچے ہیں جو اس سال رمضان اپنے گھروں سے دور اکیلے منارہے ہیں۔

ہزاروں سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں سرحد میں والدین اور گھر والوں کے بغیر داخل ہوگئے ‘ یاتو وہ یتیم ہیں کیونکہ ان کے والدین کو میانمار میں بڑے پیمانے پر کئے گئے قتل عام میں ماردیاگیاہے۔