راکھین کے روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی روہنما آنگ سان سوچی سے ایوارڈ واپس لے لیا

ایمنسی انٹرنیشنل کے سربراہ کومی نائیڈو نے آنگ سان سوچی کو لکھے گئے خط میں ہی کہاہے کہ آج ہم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپ امید ‘ ہمت او رانسانی حقوق کی مضبوط محافظ نہیں رہیں‘ اس لئے ہم ایوارڈ واپس لے رہے ہیں۔

لندن۔ ایمنسٹی انٹرنیشل نے میانمار کی حکومتی کی رہنما آنگ سونچی سے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف فوج کی جانب سے نسل کشی کی کاروائی پر خاموش رہنے پر ااعلی ترین سفارتی ایوارڈ واپس لینے کا اعلان کردیا۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ انہو ں نے آنگ سان سوچی کو2009میں ا سوقت ایمبسیڈر آف سائنس ایوارڈ سے نوازا تھا جب وہ نظر بند تھیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنکل کے سربراہ کوی نائیڈو نے آنگ سان سوچی کو لکھے گئے خط میں کہاہے کہ آج ہم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں آپ امید ‘ ہمت او رانسانی حقوق کی مضبوط محافظ نہیں رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل آپ کو ایمبسیڈر آف کونسائنس ایوارڈ کا حقدار تصور کرنے کی وضاحت نہیں کرسکتی‘ اس لیے ہم بڑے افسوس کے ساتھ اس کو واپس لے رہے ہیں ۔

یادرہے کہ آنگ سانگ سوچی او را سکی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ( این ایل ڈی ) نے 2015کے انتخابات میں ملک کی بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوے ملک میں دہائیوں سے جاری فوجی حکمرانی کا خاتمہ کردیاتھا۔

آنگ سانگھ سوچی کے دور حکمرانی میں گذشتہ برس ایسا موڑ آیا جب فوج نے ریاست راکھیں میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کاروائیوں کا آغاز کردیااو رحکومت میں ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے قاصر رہیں ۔

اقوام متحدہ کی جانب ان کاروائی کو روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی قراردیاگیاتھا۔ میانمار نے 73سالہ رہنما آنگ سان سوچی سے ریاست راکھین میں ہونے انہی فسادات کے باعث گذشتہ ماہ ہی کناڈا کی حکومت نے اعزازی شہرت واپس لے لی تھی۔

کناڈا کی پارلیمنٹ نے روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے پیش نظر میانمار کی حکمراں آنگ سان سوچی کی اعزازی شہرت واپس لینے کا فیصلہ کیاتھا۔کناڈا نے 2007میںآنگ سان سوچی کو اعزازی شہریت سے نوازا تھا۔

جہاں وہ دنیاکی محض ان چھ شخصیات میں شامل تھیں جنہیںیہ اعزازی شہریت حاصل ہے جن میں دلائی لامہ ‘ نیلسن منڈیلا او رپاکستان کی طلبہ ملالہ یوسف زئی ہیں۔

آنگ سانگ سوچی کو اسکے علاوہ خطے او ردنیا کے جامعات اور حکومتوں کی جانب سے نوازے گئے دیگر چھوٹے او ربڑے ایوارڈ بھی واپس لیے گئے تھے۔ انہیں 1991میں عالمی نوبل انعام سے بھی نوازا گیاتھا تاہم نوبل انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ اولاد نجولسٹیڈ نے ان سے ایوارڈ واپس لینے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہاتھا کہ جب ایک بار کسی کو نوبل انعام دیاجائے تو اسے واپس لینا ممکن نہیں ہوتا۔