رام جنم بھومی کے وکیل کو عدالت عظمیٰ نے غیر ضروری بحث چھیڑ نے سے روک دیا

نئی دہلی : سپریم کورٹ میں بابری مسجد ۔رام جنم بھومی حق ملکیت پر جاری سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے بحث کرنے والے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ ہندو فریقین رام مندر ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔

او روہ جو بھی بات کررہے ہیں اس کی بنیاد صرف آستھا پر ہے ۔مقدمہ کی اگلی سماعت اب ۱۳ ؍ جولائی کو ہوگی ۔علاوہ ازیں دوران سماعت ڈاکٹر دھون نے مذکو رہ بالاالفاظ اس وقت کہیں ہیں جب ہندو فریقین نے عدالت عظمی کے سامنے اپنی بات مکمل کرلی ۔

جمعیۃ علماء کے آن ریکارڈ وکیل فضل ایوبی نے بتایا کہ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ کے سامنے بابری مسجد حق ملکیت کا مقدمہ تعطیلات کے بعد آگے بڑھا یا گیا جس میں رام مندر بھومی او ررام للا کی طرف سے ہندو فریقین نے اپنی بات مکمل کی ۔

فضل ایوبی نے کہا کہ دوران سماعت مخالف فریقین کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب چیف جسٹس نے ان کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ پی این مشرا کو مسجد سے متعلق اسلامی احکامات پر بحث کرنے سے روک دیا او رایڈوکیٹ راجیو دھون سے کہا کہ وہ مسجد سے متعلق اسلامی احکامات پر روشنی ڈالیں ۔نیز عدالت کو یہ بھی بتائیں کہ اسلام میں مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

اس پر راجیودھون نے کہا کہ اسماعیل فاروقی فیصلہ کی وجہ سے مسجد وں کی شرعی حیثیت کو سخت زک پہنچا ہے ۔لہذا اسماعیل فاروقی فیصلہ کے

پیراگراف نمبر ۸۱؍ کو تبدیل کردینا چاہئے ۔کیوں کہ اس میں کہا گیا ہے کہ نماز مسجد میں پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ مسجد وں کی تعمیر تفریح کے لئے نہیں ہے بلکہ یہاں سینکڑوں لوگ نماز پڑھنے کے لئے ؔ آتے ہیں تو کیا اس کو مذہب کی ضروری پریکٹیس نہیں ماجانا چاہئے ؟

دوسری طرف صوبہ اترپردیش کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بھی بابری مسجد رام جنم بھومی معاملہ کو کثیررکنی بنچ پر سماعت کئے جانے کی مخالفت کی جس پر مسلم فریقین کی طرف سے متحدہ طور پر وکلاء نے کہا کہ کسی ریاست کا وکیل کسی مخصوص فریق کے حق میں بات نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ کسی کاحمایتی نہیں ہوسکتا ۔