رالف رسل کی حق گوئی و بے باکی

رؤف خیر
اردو زبان و ادب پر جان گل کرائسٹ کا بڑا احسان ہے ۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو اردو سکھانے کے جو جتن کئے تھے وہی ہندوستانیوں کے کام آئے ۔ اس طرح اردو ادب عالمی شاہکاروں سے مزین ہوتا گیا ۔ رالف رسل نے بھی اردو سکھانے کیلئے ایک عام فہم قاعدہ For Learners in Britain ترتیب دیا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ’’ یہ کورس ہندوستان اور پاکستان میں اردو سیکھنے والوں کیلئے استعمال میں لایا جاتا تو ذخیرہ الفاظ کے باعث کافی مفید ثابت ہوگا ‘‘
معروف و ممتاز ادیب و نقاد محمود ہاشمی سے بھی انہو ںنے ’’ اردو کا ایک قاعدہ‘‘ لکھواکر ہی دم لیا جو ‘‘ گنج گراں مایہ ‘‘ ثابت ہوا ۔
21 مئی 1918ء کو پیدا ہونے والے اور 14 ستمبر 2008 کو انتقال کرجانے والے رالف رسل کی نوے سالہ زندگی کا دو تہائی حصہ اردو کی خدمت میں گذرا ۔ رالف کو مثانہ کا کینسر ہوگیا تھا ۔ جو جگر تک پھیل کر لاعلاج ہوچکا تھا ۔ لاعلاج مریضوں کو دواخانے سے نکال کر ایک ایسے مقام پر رکھا جتا ہے، جہاں صرف Pain Killer دوائیں دے کر لمحہ لمحہ مرتے ہوئے مریض کو راحت پہونچانے کا ناٹک کیا جاتا ہے ۔ اس مقام کو Hospice کہا جاتا ہے ۔ اس کیلئے میں نے ایک نیا لفظ Coin کیا ہے ۔ مرزخ ـ بروزن برزخ ) رالف رسل کو 5 ستمبر سے ان کے مرنے تک ایسے ہی Hopice مرزخ میں رکھا گیا تھا ۔

رالف رسل اصول پسند زندگی گذارتے تھے ۔ ان کے کھانے ، پینے ، لکھنے ، پڑھنے اور سونے کے اوقات متعین تھے ۔ وہ اپنی ڈائری دیکھ کر ملنے کا وقت دیا کرتے تھے یا ملنے کیلئے وقت لیا کرتے تھے ۔ بعض اردو ادیبوں شاعروں کے ساتھ ان کے قریبی روابط تھے جیسے کرشن چندر ، علی سردار جعفری ، احمد ندیم قاسمی ، فیض احمد فیض ، شوکت تھانوی وغیرہ ۔ ایک دن اپنے ایک دوست احمد بشیر احمد سے فون پر کہا کہ وہ دوپہر کا کھانا کھاکر سوا دو بجے ان کے گھر پہنچیں گے ، قیلولہ ان کے ہاں کریںگے ، پانچ بجے بیٹھک ہوگی ، رات دس بجے سونے کیلئے چلے جائیں گے ۔ صبح سات بجے اٹھیں گے ، آٹھ بجے ناشتہ کریں گے اور دس بجے اپنے گھر واپس روانہ ہوجائیں گے ۔ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کا استقبال کرنے کیلئے اسٹیشن پر آئے یا وداع کرنے کی خاطر اسٹیشن تک جائے ۔
وہ 1980 سے تادم آخر پابندی کے ساتھ روز نامچہ لکھا کرتے تھے ۔ وہ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی پبلشر ان کا ایک لفظ بھی بدل دے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی تحریر اسی صورت میں شائع ہوجیسی کہ انہوں نے لکھی ہے ۔ ردوبدل کے وہ سخت مخالف تھے ۔
رالف رسل ہر کس و ناکس سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے بھلے ہی وہ ان کا مداح ہو ۔ ایک دفعہ احمد بشیر نے رسل صاحب کی اجازت کے بغیر ان سے ملاقات کیلئے ایک انگریز خاتون کو جو فرانسیسی کی ریٹائرڈ پروفیسر تھیں اپنے گھر مدعو کرلیا ۔ وہ جرمن اور روسی زبانیں بھی بخوبی جانتی تھیں ۔ رسل صاحب آئے ۔ اس انگریزی خاتون کو پانچ منٹ تک قوالی سنائی اور دس منٹ بعد اپنے بیگ اٹھاکر واپس ہوگئے ۔ بشیر صاحب دیکھتے رہ گئے ۔ رسل صاحب اپنی نجی زندگی کے تعلق سے بھی صاف گوئی سے کام لیتے ہیں کہ 1948ء میں ان کی شادی ہوئی تھی مگر چالیس سالہ رفاقت کے باوجود تعلیم اور مزاج کے فرق کی وجہ سے 1989 ء میں بیوی سے علحدگی ہوگئی تب سے وہ تادم آخر تنہا زندگی گذارتے رہے ۔

رالف پکے کمیونسٹ تھے 1936 ء ہی کے آس پاس وہ کمیونسٹ ہوگئے تھے ۔ 1946 ء میں وہ پارٹی ممبر بنے مگر کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں انہو ںنے جو کچھ کھل کر کہا وہ حیرت انگیز ہے ۔
’’ اگرچہ ایسے کمیونسٹ سپاہی کافی تعداد میں موجود تھے جو میرے تصور کے مطاق تھے لیکن بیشتر تعداد ان کی تھی جو ایسے نہیں تھے اور رہے لیڈر تو ان میں سے اکثر ایسے تھے جو صحیح معنوں میں کمیونسٹ کہلانے کے مستحق نہیں تھے ۔ اب بہت عرصہ بعد میرا یہ پکا خیال ہوگیا ہے کہ ہر ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا ہر لیڈر جھوٹا ، بے ایمان اور ظالم ہوتا ہے اور جو خود زیادہ ظلم نہیں کرتے وہ ظالموںکی حمایت کرتے ہیں اور ان کا ظلم چھپاتے ہیں اس کلئے سے کمیونسٹ لیڈر کسی طرح بھی مستثنی نہیں‘‘ ۔
( ملاحظہ ہو’’ چہارسو‘‘ راولپنڈی مئی جون 2008ء )
یہ الگ بات ہے کہ اہلِ سیاست رالف سے اتفاق نہ کریں
رالف رسل کسی سے مرعوب کبھی نہیں ہوتے تھے ۔ حتیٰ کہ وہ اپنے اساتذہ کو بھی ’’ سر ‘‘ Sir کہہ کر مخاطب نہیں کیا کرتے اور نہ گفتگو میں بے جا تکالیفات سے کام لیا کرتے تھے ۔ ’’ میں نے عرض کیا ‘‘ کی جگہ ’’ میں نے کہا‘‘ اور ’’ راقم الحروف ‘‘ کے بجائے سیدھے سادے لہجے میں ’’ میں ‘‘ کہا اور لکھا کرتے تھے ۔ رسل نے ہند و پاک کے دو قد آور سیاست دانوں کے بارے میں اپنے خیالات بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بیان کئے جن میں سے ایک مہاتما اور دوسرے کو بابائے قوم / قائد اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ گاندھی جی کے بارے میں وہ کہتے ہیں :
’’ بنیادی طور پر گاندھی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے حق میں تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو اپے ملازمین کی طرف ہمدردانہ برتاؤ کرنا چاہئے ۔ گاندھی ایسا کہتے ضرور تھے مگر وہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کو بھی کوئی نقصان پہونچانا نہیں چاہتے تھے ۔ میں سمجھتا ہوں وہ ایک بزرگ اور ولی کی مانند تھے ۔ ہندو مسلم فسادات کے دوران انہو ںنے جس عمل کا مظاہرہ کیا ساری دنیا کو اس کیلئے ان کی عزت کرنا چاہئے ‘‘۔محمد علی جناح کے بارے میں بھی رسل کی رائے دو ٹوک تھی وہ کہتے ہیں ۔ ’’جناح صاحب ایک سچے لیڈر اور بڑے قانون داں تھے مگر میرے لئے ان کی آئیڈیالوجی سے اتفاق کرنا قدرے دشوار ہے ۔ میرے خیال میں جناح صاحب کی پالیسیاں ان کی قوم کے حق میں نہ جاسکیں ۔پاکستان کی آزادی کے وقت بنگالی اپنے لئے ایک آزاد ریاست چاہتے تھے ۔ لیکن جناح صاحب نے یہ منظور نہ کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک ریاست آزاد ہوگی جس کی زبان اردو ہوگی جوکہ بنگالیوں کے ساتھ ناانصافی تھی ۔ جبکہ جناح صاحب بذات خود اردو بولنے اور لکھنے پر قادرنہ تھے ‘‘۔رالف رسل کی رائے سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے مگر نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔
مدیر چہار سو ( راولپنڈی ) جناب گلزار جاوید کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے رالف رسل نے بعض ممتاز قلم کاروں کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کیا ۔ کرشن چندر کے بارے میں رسل کہتے ہیں :’’ ان کی زیادہ ترتخلیقات میرے خیال میں فضولہیں مگر وہ انسان بہت عمدہ تھے میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ان کی تخلیقات کا تین چوتھائی حصہ ضائع بھی کردیں تو اردو ادب کا کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ جو حصہ بچے گا اس میں ان کی بہت عمدہ تخلیقات یقیناً شامل ہوں گی ‘‘۔

کرشن چندر کے فکر و فن پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر بیگ احساس کا اس معاملے میں پتہ نہیں کیا احساس ہے ۔ جب کبھی رسل ممبئی جاتے تو کرشن چندر ہی کے ہاں قیام کرتے تھے ۔ اس کے باوجود انہوں نے ان کے فکر و فن پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ چونکہ رالف شاو نزم کے سخت خلاف تھے ۔ انہوں نے کرشن چندر کی ایک مقبول عام کہانی ’’ کالوبھنگی ‘‘ کا انگیزی میں ترجمہ بھی کیا تھا جو انہیں بہت پسند تھی ۔
مشہور ممتاز نابغہ روزگار عزیز احمد بھی چونکہ (School of Oriental and African Studies) SOAS میں پڑھاتے تھے ۔ رالف رسل نے انہیں اپنا کولیگ لکھتے ہوئے ان کی علمیت کی داد دی ہے اور ان کے ایک مشہور ناول ’’ ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘ کا The Shore and the Wave کے نام سے انگریزی ترجمہ بھی کیا تھا ۔ عزیز احمد کی وفات 16ڈسمبر 1978ء ٹورنٹو میں ہوئی ۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کے احباب اور شادگروں نے تاثراتی مضامین لکھے جنہیں ملٹن اسرائیل اور این کے واگلے نے 1983ء میں کتابی صورت دی ۔ اس کتاب میں شامل اپنے ایک مضمون عزیز احمد ، جنوبی ایشیاء ، اسلام اور اردو ‘‘ میں رالف رسل نے عزیز احمد کے تعلق سے بڑی بے باکی سے یوں رائے دی ۔
’’ عزیز احمد نے ( ایسی بلندی ایسی پستی ) کے علاوہ کئی ناول لکھے ان کے اپنے وطن میں اس کام کے سلسلے میں انہیں کافی شہرت تو نہیں کی بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کافی بدنامی ملی کیونکہ ان کی تحریروں کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ ناشائستہ اور غیر اخلاقی ہوتی ہیں ۔ درحقیقت ان میں ان خواتین و حضرات کی ذاتی زندگیوں کی تصویر کشی ایسی جھلکیوں میں پیش کی جاتی تھی کہ جو بھی مصنف کے اور اس کے جان پہچان والوں کے بارے میں تھوڑی بھی معلومات رکھتے ہوں وہ آسانی سے پہچان جاتے تھے کہ ان کے کردار کہاں سے لئے گئے ہیں ’’( ترجمہ از:اہادیہ شبنم )
انگریزی صحافت سے وابستہ اردو ادب کی قد آور قلم کا رقرۃ العین حیدر کی انگریزی دانی پر بھی رالف رسل نے حرف رکھا ہے :
’’ انہوں نے حسین شاہ کے ناول ’ نشتر‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے ۔ اس میں جگہ جگہ ایسے انگریزی الفاظ لکھے ہیں جو بامحاورہ ضرور ہیں مگر ایسے موقعوں پر استعمال کئے گئے ہیں جہاں وہ بالکل موزوں نہیں ۔ ایک نمونہ ہی کافی ہوگا ۔ کسی نے ایک صحاب سے پوچھا کہ آپ نے کافی رقم ان لوگوں کو دی ہے ؟ تو اس کے جواب میں ان صاحب نے کہا کہ” They will get it with knobs on””، ‘tonightWith knobs on’ پڑھ کر ہنسی آئی ۔ میں سوچتا ہوں کہ قرۃ العین حیدر دل میں کہتی ہوں گی کہ دیکھئے مجھے کتنی بامحاورہ انگریزی آتی ہے ۔ لیکن وہ یہ نہیں محسوس کرتیں کہ اس موقعے پر اس محاورہ کی گنجائش بالکل نہیں اس موقع کیلئے یہ بالکل موزوں نہیں ‘‘۔
رالف رسل کے قرۃ العین حیدر پر اس کڑے ریمارک کے بعد میں نے شان الحق حقی کی مربہ آکس فورڈ انگلش اردو ڈکشنری سے رجوع کیا تو اس میں With knobs on کے محاورہ کے بارے میں صاف صاف لکھا دیکھا : مع ، مزید ، علیہ ، بیش باد ، کسی ہتک کے جواب میں بڑھ چڑھ کر جواب ۔
‘And the same to you with knobs on’ اس پر یاد آیا کہ غیر مسلموں کے السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہنے پر جواباً صرف وعلیکم کہنے کی کیوں تاکید آئی ہے ۔ روپئے پیسے کے لین دین میں منافع سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

( یہ ناول ، نشتر ، وہی ہے جس کے بارے میں عزیز احمد نے مدیر نقوش محمد طفیل کے نام ایک خط مورخہ 26 فروری 1950 ء کو لکھا تھا کہ یہ ایک بڑا بے مثل ناول ہے ۔ جو امرؤجان ادا ، سے بھی بہت پہلے لکھا گیا تھا جس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی ایڈیٹنگ اور اس پر مقدمہ لکھنے کا معاوضہ وہ ان سے دو سو روپئے طلب کرتے ہیں مگر محمد طفیل سے یہ سوداپٹ نہ سکا ۔ شاید اس ناول کی اہمیت ہی نے بعد میں قرۃ العین حیدر کو اس کا انگریزی ترجمہ کرنے پر آمادہ کیا ۔
رالف رسل نے اردو کے تنقید نگاروں کے بارے میں بھی اپنی آزادانہ رائے دی ۔ احتشام حسین کی تنقید نگاری کو وہ بالکل بے کار سمجھتے تھے ۔ آل احمد سرور کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ’’ وہ ( سرور ) یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہوں نے انگریزی ادب اور تنقید کا کافی مطالعہ کیا ہے ‘‘ ۔ رالف رسل نے بین السطور ترقی پسند نقطہ نظر پر چوٹ کرتے ہوئے صنفِ غزل کے حق میں کہا :
’’ تیس کی دہائی سے بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ غزل کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ مگر میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں اردو غزل ایک توانا صنف ہے اور اس کو باقی رہنا چاہئے ۔
رالف رسل نے علامہ اقبال کے فکر و فن پربھی کھل کر لکھا ہے ۔ یہاں اقبال کے تعلق سے ان کی بے باکانہ رائے پیش کی جاتی ہے ۔
اقبال کے خودی کے نظریہ سے تو میں متفق ہوں لیکن مسلمان تاریخ کے بارے میں ان کا نظریہ میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اٹھارویں صدی میں جی رہے ہیں ۔ اس کی مثال میں اس طرح دینا چاہوں گا کہ ان کا زیادہ کلام فارسی میں ہے ۔ اقبال سمجھتے تھے کہ ہندوستان سے لے کر ایران تک سب لوگ فارسی کو اہمیت دیں گے لیکن ایرانی کسی ہندوستانی شاعر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ جاوید نامہ پڑھئے تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال طاقت سے کافی مرعوب ہوتے تھے ۔ یعنی نادر شاہ جس نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قتل کیا ، ان کے نزدیک ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان تھا ‘‘۔

( ’’چہارسو‘‘ مئی ۔ جون 2008ء )
فارسی ادب کے اسکالرز جانتے ہیں کہ ایرانی نقاد تو عرفی اور خسرو کو بھی ’ سبک ہندی ‘ کے شاعر کہہ کر چشم کم سے دیکھتے رہے ہیں جبکہ سعدی شیرازی جیسا شاعر خسرو کی شاعرانہ حیثیت سے متاثر ہو کر ان سے ملنے کیلئے ہندوستان آتا ہے ۔ خود غالب و اقبال کی پذیرائی ایران میں کتنی ہوسکی ہے ۔ اس میں شک نہیں علی شریعتی نے اقبال کی قدر کی ۔ بس ۔ اردو زبان و ادب کے ارتقاء کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ رالف رسل نے کہا اس کو جھوٹ ثابت کرنے کی ضرورت ہے ۔ رسل کا خیال ہے ۔’’ انڈیا میں اردو زوال پذیر ہے ”It will not survive in any meaningful way” ۔

پاکستان میں اردو کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا گیا ہے اس پر بھی رسل چوٹ کرتے ہوئے نظام دکن کی مساعی جمیلہ پر بھی سخت گرفت کرتے ہیں ۔ ’’میرے خیال میں پاکستان کا حکمراں طبقہ انگریزی کو اولیت دینا چاہتا ہے ۔ لیکن چونکہ اردو پاکستان کی قومی زبان قرار دی گئی ہے اس لئے دکھانے کیلئے اردو کی سرپرستی کرتا ہے جس کی ایک مثال ’’ مقتدرہ قومی زبان ‘‘ کا قیام ہے … میں نے ابھی قومی انگریزی اردو لغت میں دیکھا جسے ڈاکٹر جمیل جالبی نے ایڈٹ کیا ہے اور مقتدرہ نے شائع کیا ہے کہ سوشیالوجی کا ترجمہ ’’ عمرانیات ‘‘ دیا گیا ہے اور انتھر دو پالوجی کا ’بشریات‘۔ حالانکہ سوشیالوجی کا صحیح اردو ترجمہ سوشیالوجی ہے اور انتھر و پالوجی کا انتھر و پالوجی ‘ ۔ یہ بری روایت اصل میں عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ نے قریب ایک صدی پہلے قائم کی تھی ۔ کس کا نظریہ یہ تھا کہ عربی و فارسی کے سوا اردو کو کسی غیر ملکی یا غیر اسلامی زبان کا کوئی لفظ اپنانا نہیں چاہئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل زبان بھی اس کے ترجمے آسانی سے پڑھ نہیں سکے ۔ طبعیات ، کیمیا ، ریاضی ، عاداعظم مشترک ، ذواضعاف اقل ، لامتناہی ، آلہ مقیاس الحرارت جیسی اصطلاحات تو دور کی بات ہے آج اخبارات سے وزیر اعلی ، وزیر اعظم تک غائب ہوگئے ہیں ۔ تو کیا واقعی ترجمے کی روایت کو مشکل اصطلاحات سے ماورا ہوجانا چاہئے ۔ اب جب کہ علمی و ادبی زبان لکھنے اور سمجھنے والے ہی ناپید ہوتے جارہے ہیں کیا ہمیں رالف رسل کی ہمنوائی پر آزادہ ہوجانا چاہئے ؟ وزیر اعلی کی جگہ چیف منسٹر اور وزیر اعظم کی جگہ پرائم منسر ، صدر کی جگہ پریسیڈنٹ اور معتمدی کی جگہ سکریٹری ہی اختیار کرلینا چاہئے ؟ اردو کی اپنی شناخت آخر کیسے قائم رکھی جاسکے گی ؟ رالف رسل اردو والوں کے مزاج میں شامل مبالغے کو پسند نہیں کرتے ۔ ان کا خیال ہے کہ ’’ آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا ‘‘ کی جگہ ، آپ کا خط ملا ، اور ’’ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوئی ‘‘ کے بجائے ‘‘ کتاب چھپی ‘‘ کہنا کافی ہے ۔

میرے خیال میں ہر زبان کی ایک تہذیب ہوتی ہے ۔ یہ روایت تو انگریزی میں بھی ہے مگر اسے وقت کا زیاں سمجھا جانے لگا ہے ۔ اردو والوں کی ایک کمزوری پر رالف رسل نے گرفت کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ جب میں اردو کی دنیا میں کچھ مشہور ہوگیا ، اکثر یہ ہوتا رہا ہے کہ ہندوستانی مصنف اپنی تصانیف میرے پاس اس خواہش کے ساتھ بھیجتے رہے ہیں کہ میں اپنی قیمتی رائے سے ان کو سرفراز کروں ۔ عام طور پر یہ بہت جلد معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ میری قیمتی رائے کی توقع نہیں کرتے بلکہ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں ۔ بعض یہ کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ میری رائے ان کے حق میں نہیں تو ان کی نظر میں میری رائے کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی ‘‘مجھے یاد آیا شاعروں ادیبوں کے اسی روئییسے تنگ آکر گیان چند جین نے ایک مضمون ہی لکھا تھا ’’ میری تعریف کرو ۔ ایک مذموم مطالبہ ‘‘ ( ذکر و فکر 1980ء)
مختصر یہ کہ رالف رسل اپنی صاف گوئی کیلئے شہرت رکھتے تھے اصول پسند تھے اور اپنی شرطوں پہ جیتے تھے ۔