رافیل سودے بازی میں وسیع تر چھان بین کے مطالبہ کو بی جے پی تسلیم کرے

راج دیپ سردیسائی

سیاست میں بڑھتے ہوئے چوبیس گھنٹے میڈیا کی بدولت انتظامی ادراک کا شعور بھی بڑھنے لگا اور اس کی وجہ سے کسی بھی اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کیلئے تاخیر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اَنا ہزارے کی جانب سے رشوت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کو UPA2 حکومت نے اپنی ناکامی کا ثبوت دیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے ۔ حکومت کی ناکامی کے باعث میڈیا نے جب اس پر زیادہ توجہ مرکوز کی تھی تو حکومت بھی حرکت میں آگئی تھی۔
برخلاف اس کے مودی حکومت نے اپنی چالاکی سے میڈیا کو اس طرح اپنے کنٹرول میں کرلیا کہ کسی بھی چیانل کے نیوز کی سُرخیوں کو مودی ٹیم کی تائید ضروری ہے۔ کسی بھی حکومت کے دور اقتدار میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کسی بھی معاملہ میں ہلڑ بازی کے باعث حکومت حواس باختہ ہوجاتی ہے، اور یہی کیفیت اب مودی حکومت میں نمایاں ہے۔ جب کانگریس نے رفائل سودے بازی کومنظر عام پر لایا اور عوام تک اس کی حقیقت جب آشکار ہ کرنے لگی تو مودی حکومت کا تختہ جنبش کھانے لگا۔ اس کی مثال مرکزی وزیر دفاع جو عام طور پر خاموش گو تصور کی جاتی ہیں اب ہر میڈیا کے سوال کے جواب میں اُکھڑا اُکھڑا سا جواب دینے لگیں۔ کم و بیش ہر مرکز ی وزیر جس کا دفاع سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ہر روز راہول گاندھی پر نشانہ سادھنا ان کا معمول ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ صدر کانگریس نے اب بی جے پی قیادت کی کرسی کو جنبش دینا شروع کردیا ہے۔
بی جے پی ترجمان ہمیشہ برملا جواب دیتے ہیں کہ اس اسکینڈل میں پاکستانی ہاتھ ہے اور وزیر فینانس نے یہاں تک کہہ دیا کہ سابق صدر فرانس فرانکوئی سولندکے اور گاندھی کے درمیان کچھ ملی بھگت ہے اور وزیراعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی حکومت کے خلاف ایک عالمی مہا گٹھ بندھن بن گیا ہے۔ اور یہ ایک شاطرانہ طریقہ کار ہے کہ جب کبھی کسی معاملہ میں عقلیت پسندی مفقود ہوجاتی ہے تو صرف بیان بازیوں سے ہی کام لیا جاتا ہے۔
مودی کا یہ بیان کہ اس اسکینڈل میں بیرونی ہاتھ کارفرما ہے ، دراصل اندرا گاندھی کی حکمت عملی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور یہ ایک عام تاثر پایا جاتا تھا کہ جب کبھی اندرا گاندھی کو پس پشت کردیا جاتا تو وہ کسی بھی معاملت کا سہارا لے کر دوبارہ سرخیوں میں آجاتی تھیں اور قومی سیاست میں دوبارہ مقام بنالیتیں ،اور اب موجودہ پس منظر بھی اسی طرح کا ہے کیونکہ سونیا ۔راہول قیادت والی کانگریس سے موجودہ حکمراں پارٹی کو خطرہ محسوس ہورہا ہے تو ایک بار پھر سے سُرخیوں کی زینت بننا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر 2017 کے گجرات اسمبلی انتخابات کے موقع پر وزیر اعظم مودی نے کانگریس کے خلاف محاظ کھول دیا تھا یہ کہہ کر کہ کانگریس پارٹی کا پاکستان کے ساتھ ساز باز ہے ۔ یہاں تک کہ اس پروپگنڈہ کو مزید تقویت دینے کیلئے ایک فرضی فیس اکاؤنٹ بھی کھولا گیا تھا ۔ کانگریس۔ اسلام آباد سازش نظریہ کو اس طرح سے اُچھالا گیا تاکہ کم از کم شہری ووٹس اس سے متاثر ہوں۔
اب چونکہ بعض اسمبلی حلقوں کے انتخابات سرپر ہیں اس لئے رفائیل سودے بازی ایک گرما گرم موضوع بحث بنا ہوا ہے اور بی جے پی نے اس اسکام کے جواب میں کانگریس پر ایک بھرپور وار شروع کردیاہے۔ بی جے پی کے اس الزام پر کہ راہول گاندھی کے پشت پر پاکستانی ہاتھ کار فرما ہے۔ یہ کہہ کر وہ مخالف قومی پروپگنڈہ کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ میں سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وڈرا کا نام گھسیٹا جارہا ہے تاکہ کانگریس کے اقرباء پروری رقابت کا بی جے پی کی رشوت ستانی سے موازنہ کیا جاسکے۔ بی جے پی کی بوکھلاہٹ ظاہر کرتی ہے کہ اس اسکینڈل کی بدولت مشہور و معروف شخضیات کا رنگ و روپ مدھم پڑتا چلا جارہا ہے اور اب بی جے پی مجبور ہوچکی ہے کہ وہ روز مرہ کے حکومتی معاملات کو بازو روکھ کر اس اسکینڈل کے الزامات کا بھرپور دفاع کیا جائے۔ اس اسکینڈل کی بدولت ملک کے معاشی چیلنجس پس پشت پڑ گئے ہیں۔ جس طرح اَنا ہزارے تحریک نے رام لیلا میدان کے مجموعہ کو زینت بخشی تھی اور کانگریس کا تخت جنبش کررہا تھا۔ اب رفائل سودے بازی نے بھی سوشیل میڈیا کی زینت بن کر وارجوابی وار کے ایک انوکھے سلسلہ کو پیدا کردیا ہے۔
رافیل سودے بازی کو ہم کانگریس سے تعبیر تو نہیں کرسکتے لیکن ایک لفظی جنگ میں ایک طرف وزیر اعظم کا ہاتھ انیل امبانی کی پشت پر ہے تو دوسری جانب کانگریس کا ہاتھ عوامی شعبہ کمپنی ہندوستان ایروناٹک لمیٹیڈ (HAL) کے سر پر ہے اور یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہے کہ وہ قومی ترنگے کو لے کر لہرائے۔ کیونکہ اس نے اپنے ترنگے کو ایک ایسی کمپنی پر ڈھانپ دیا ہے جو قرض کے بوجھ تلے زیر نگوں ہے ۔ وزیر اعظم کے مشہور زمانہ نعرہ ’’ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا ‘‘ جس کا اشارہ رشوت ستانی کی جانب تھا مدھم ہوچکا ہے۔
ہوسکتا ہے مودی اپنی شخصیت کی بدولت کچھ حد تک اس جنگ سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن عوام کیلئے اس معاملت پرسے پردہ اٹھانا پڑے گا اور پارٹی اور حکومت کو اس دھندلے میں سے نکال کر شفافیت بخشنا ضروری ہے۔ لیکن ایک بات ضروری ہے کہ کوئی بھی حکومت اکیلے مزہ نہیں لے سکتی۔
نوٹ : ہند۔ پاک وزرائے خارجہ ملاقات، نیویارک کی تجویز سے اچانک یوٹرن لینا ہندوستان کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے کیونکہ کسی بھی فیصلہ سازی میں بجائے ٹوئٹرکے شخصی سیاسی پالیسی کار ساز ہوتی ہے اور اس حقیقت کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ عوام نے بھانپ لیا ہے۔
rajdeepsardesai52@gmail.com