راجستھان کے الور میں ایک اور شخص کے ہجومی تشدد میں ہوئی موت

جمعہ کی رات کو گاؤں کے ایک30سالہ راکھبرکو اس قدر پیٹا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی‘ مبینہ طور پر اسی گاؤں کے کچھ لوگوں نے متوفی پر گاؤ کی تسکری کا شبہ کیاتھا
کو ل گاؤں/ہریانہ/الور/راجستھان۔جیسے ہی آپ ہریانہ کے میوات علاقے میں واقع دیہات کول گاؤں پہنچیں گے تو آپ کو پولیس کی بھاری جمعیت دیکھائی دے گی۔ گاؤں میں رہنے والی کی اکثریت مسلم خاندانوں کی ہے جو یا تو میویشوں کی تجارت کرتے ہیںیا پھر ڈائری کا کروبار چلاتے ہیں یاپھرزراعت کے ذریعہ اپنا گذار ا کرتے ہیں۔

جمعہ کی رات کو گاؤں کے ایک30سالہ راکبر کو اس قدر پیٹا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی‘ مبینہ طور پر اسی گاؤں کے کچھ لوگوں نے متوفی پر گاؤ کی تسکری کا شبہ کیاتھا۔ اپنے گھر کے سامنے راکھبر کی بیوہ 28سالہ آسمیناچٹائی پر پڑی زار وقطار رورہی ہے۔

ان کی بڑی بیٹی دس سال کی سائرہ قریب میں بیٹھی ہے۔ نیم بیہوشی کے عالم میں پڑی آسمینا کو کچھ دیر کے لئے ہوش آتا ہے تو وہ اپنے شوہر کا نام پکارتی ہے اور پھر نیم بیہوشی کے عالم میں چلی جاتی ہے۔ راکھبر کی ساس کریمن نے پوچھا کہ ’’ ہم انصاف چاہتے ہیں‘ ہمارے گھر چلانے والے وہ اکیلا تھا۔

اس کے سات بچے ہیں۔ کوئی بھی بڑا نہیں ہے جو کام کرکے گھر چلاسکے۔ ان کا پیٹ اب کو ن بھرے گا؟‘‘۔ مقامی لوگوں زیادہ تر مسلسل میڈیا کی موجودگی اور بھاری پولیس کی تعیناتی حوصلہ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

کئی لوگ متوفی کے گھر جارہے ہیں ‘ ان کے متعلق جانکاری حاصل کررہے ہیں اور چلے جارہے ہیں۔ مقامی رکن اسمبلی نسیم خان اور علاقے کے مسلم سماج کے صدر شیر محمد بھی متاثر خاندان سے ملاقات کی ‘ اور اپنی یگانگت کا اظہار کیا۔

راجستھان کے الور لاء کالج سے ایل ایل بی کررہے ہیں نوجوان عابد حسین نے کہاکہ’’ یہ ایک بدبختانہ واقعہ ہے۔

سارا خاندان پریشان ہوگیا ہے۔ ان بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟۔ اس قسم کا یہ دوسرا واقعہ ہے‘ یہ رحجان بن گیاہے۔

گاؤں کے بزروگوں نے مشوہ ردیا کہ مرکزی شاہرہ پرنکل نعش کے ساتھ احتجاج کریں گے‘ مگر اس کوروک دیا گیا۔ امن اور ہم آہنگی اہم ہے‘ مگر کس قیمت پر ؟‘‘

ایک مقامی شخص نے کہاکہ کول گاؤں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔

یہ واقعہ یہاں کی تاریخ میں رقم ہوجائے گا۔متوفی کے بھائی طارق کے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ پورے خاندان میں چار گائے ہیں۔ جمعہ کے روز مارکٹ میں دونوں بھائیوں کی ملاقا ت ہوئی۔

جب راکھبر نے بھروسہ دلایا کہ مویشی رات کودے دیگا ۔ مذکورہ گائے گاڑی میں چڑنے کو تیار نہیں تھی تو پھر اس نے کچھ فاصلہ تک گائے کو پیدل لے جانا کا فیصلہ کیا‘ اس کے بعد طارق روپڑا۔