دہلی سنٹرل یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر نجمہ اختر سے ایک ملاقات 

آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی نہیں پوری دیلی کی سنٹرل یونیورسٹی کے پہلی خاتون وائس چانسلر بنی ہیں۔ کیاسونچتی ہیں؟

بہت خوشی ہے لگ رہا ہے صحیح ہوا ‘ حالانکہ دیر سے ہوا۔

میں شکر گذار ہوں کہ حکومت نے آخر کار خواتین کو اس قابل سمجھا۔

کیونکہ اتنے سال میں ہمیں اتنی بڑی ذمہ دار نہیں دی گئی ۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے ۔ اس سے نوجوان خواتین بھی اس مقام پر آکر ذمہ داری سے کام کرنے کی ہمت کر پائیں گے۔

جامعیہ کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے ‘ اس سے خود کو کیسے جوڑتی ہیں؟

میں پچاس سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نوکری کرچکی ہوں ۔ جامعیہ تو وہیں سے شروع ہوئی تھی ۔

اس کو قائم کرنے والے علی گڑھ کے ہی تھے۔

ٹیچرس اور اسٹاف بھی بڑی تعداد میں علی گڑھ سے ہی آیا۔ اس وجہہ سے جامعیہ میرے لئے بلکل نیا نہیں ہوگا۔مجھے اس سے جڑنے میں اپنا پن لگ رہا ہے۔

میں جامعیہ کئی اکیڈیمک پروگراموں کے لئے اتی رہی ہوں ۔ میں یہاں بطور پریسڈنٹ کی جانب سے نامزد ای سی رکن ہوں ‘ ایسے کئی فیصلوں میں شامل ہوئی ہوں۔

جامعیہ میں بطور وی سی رہ کر کیاخاص کرنے کے متعلق سونچ رکھا ہے؟

جامعیہ قومی او ربین الاقوامی سطح کی ایک بہتریونیورسٹی ہے۔ مگر ابھی بھی کافی گنجائش ہے۔

میں چاہوں گی کہ یہ بارہ سے ایک رینک پر پہنچے جائے۔ ہمیں بین الاقوامی رینکنگ میں بھی جگہ ملے۔ جامعیہ کے پاس کانسے کا معیار بہت ہے۔

یونیورسٹی میں ابھی کوئی ایسا کام ہے ‘ جس کے لئے فوری طور پر حرکت میں آنا ہوگا؟

جامعیہ کو مجھے گہرائی سے سمجھنا ہوگا۔ میری کوشش ہے کہ پہلے پندرہ دن ٹیچرس‘ اسٹاف اور اسٹونٹس سے ملاقات کراس جائزہ بذات خود لوں گی۔

کہیں کوئی سدھار کیاجاسکتا ہے‘ یہ سونچوں گی۔ ملک کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے جامعہ میں کام شروع کرنے کی سونچ رہی ہوں۔ نئے کورس کی شروعات ممکن ہے۔

لڑکیاں نئی و ی سی کے آنے سے بہت خوش ہیں ۔ ان کے لئے ابھی کچھ سونچا ہے؟

بالکل سب سے پہلے جامعہ میں لڑکیوں کے داخلہ میں اضافہ چاہتی ہوں