دہشت گردی کے الزام میں گرفتار تین مسلم نوجوان بری

قانونی امداد فراہم کرانے والی تنظیم جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہاکہ عدالت کا فیصلہ خوش ائند ہے‘ جعلی نوٹ رکھنے کے الزام میں ایک باعزت بری ‘ دوکو چھ سال کی سزاء ‘ قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے انصاف کی جیت قراردیا
نئی دہلی۔دہشت گردری کے الزام میں گرفتار نے گناہ نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیتہ علماء ہند کو ایک مرتبہ پھر بڑی کامیابی اس وقت ملی کہ جب دہشت گردی کے الزام میں گرفتار تین مسلم نوجوانوں کو بری کردیاگیا۔دہشت گردی کے الزام میں گرفتار100سے بھی زائد لوگوں کو باعزت بری کرانے والے صدر جمعیتہ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیاہے اور اس کو خوش ائند قراردیا ہے۔ نیز انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی ہے کہ ملک کے مسلمان دہشت گرد نہیں ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اصل ملزمین کو چھوڑ اجارہا ہے اور بے گناہوں کو گرفتار کاجارہا ہے جس سے مسلمان نہیں بلکہ ملک کو خطرہ لاحق ہورہا ہے ۔ علاوہ ازیں جمعیتہ علماء ہند صدر دفتر سے جاری پریس نوٹ کے مطابق ’’ ممبئی کی خصوصی سیشن عدالت نے دہشت گردی کے الزام سے ایک طرف جہاں تین مسلم نوجوانوں کو بری کردیا ہے وہیں دوسری طرف جعلی نوٹ رکھنے کے الزام میں دو ملزمین کو چھ سال کی سزا سنائی اور ایک کو باعزت بر ی کیاگیا ہے ۔

حالانکہ ملزمین اب تک جیل میں چھ سال سے زائد کا عرصہ گذار چکے ہیں۔ جمعیتہ علماء ہند صدر دفتر نے یہ رپورٹ ممبئی میں ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیتہ علماء مہاشٹرا ( ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کے حوالے سے جاری کی ہے جس میں گلزار اعظمی نے بتایا کہ ممبئی کے سیشن عدالت کے جج وی پی اہواڑ نے ہارون عبدالرشید نائیک سمیت اسرار احمد عبدالحمید ‘ اظہر السلام محمد ابراہیم صدیقی کو دشہت گردی کے قانون یو اے پی اے( غیرقانونی سرگرمیو ں کی روک تھام والاقانون) سے بری کردیا جبکہ انہیں جعلی کرنسی رکھنے کے تحت تعزیزات ہند کی دفعہ’ سی 489کے تحت چھ سال کی سزا سنائی ہے۔

اس موقع پر مولاناارشد مدنی نے کہاکہ عدالت نے مسلم نوجوانوں پر سے دہشت گردی کے الزام کو مسترد کردیا جو انسداد دہشت گرد دستہ کے لئے باعث ہزیمت ہے وہ نیز وہ عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہاکہ اس فیصلے سے عوام بالخصوص اقلیتوں میں عدلیہ کے تئیں اعتماد میں مزید اضافہ ہوگا او رحصول انصاف کی امید لیے عدالتی جنگ لڑرہے بے قصور افر اد کو حوصلہ ملے گا۔