دوحا میں افغان بات چیت کی شروعات’’ ہم جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘

طالبان کے سینئر لیڈر مولا برادارتنازعات کو ختم کرنے کے لئے امریکہ ساتھ بات چیت کی پانچویں مرحلے کی شروعات کے لئے دوحا پہنچے۔

کابل افغانستان ‘ مذکورہ امریکہ اور اس طالبان قطر کی درالحکومت دوحا میں اعلی سطح بات چیت کی شروعات کررہے ہیں جس کا مقصد پچھلے سترا سال سے جاری افغانستان تنازعہ کا حل تلاش کرسکیں۔

مولا عبدالغنی برادار کو پچھلے ماہ قطر میں طالبان کے سیاسی امور کا سرابرہ مقرر کیاگیاتھا ‘ وہ اتوار کے روز پاکستان سے یہاں پر پہنچے ‘ جہاں پر وہ کئی سالوں سے رہ رہے تھے‘ اس بات کی جانکاری طالبان کے ایک ذرائع کے مذکورہ چارروزہ بات چیت کے متعلق دی ہے۔

طالبان گروپ کے دو سابق اراکین بھی اس بات چیت کا یصہ رہیں گے جو طالبان کے نمائندوں اور امریکہ مبصر برائے افغانستان ضالمے خلیل زادہ کے درمیان میں ہوگی ‘ جنھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ امن معاہدے طئے پائے گا

حالیہ دنوں میں اس وقت مذکورہ بات چیت کو کافی فروغ ملا ہے جب امریکہ نے طالبان سے بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی ‘ یہ گرو پ جب سے اقتدار سے محروم ہوا ہے تب سے خطرناک مصلح باغی گروپ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ چاہتے کہ17سال سے جاری اس جنگ کاخاتمہ ہوجائے جس میں ہزاروں لوگوں کی موت ہوگئی ۔ اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے دس سالوں میں کم سے کم 32ہزار شہری مارے گئے ہیں اور ساٹھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں

۔برادار نے ملا عمر کی مدد کی تھی جس کی موت2013میں ہوئی او روہ 1994میں افغانستان میں طالبان تحریک کا اہم سرغنہ تھا۔سال2001میں امریکہ کی زیرقیادت افواج کے ہاتھوں طالبان کو ختم کرنے کے بعد وہ پاکستان فرار ہوگیاتھا۔ پاکستان کے سکیورٹی اپریشن برائے2010میں اس کو گرفتار کرلیاگیاتھا۔

امن بات چیت کاحصہ رہے طالبان کے ذرائع نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ بات چیت کی شروعات وہیں سے ہوگی جہاں پر پچھلی مرتبہ بات چیت کا اختتام عمل میں آیاتھا‘ بات چیت کا مرکز توجہہ امریکہ افواج کی دستبرداری ہے‘‘۔

دوحا میں ہوئی پچھلے مرحلوں می بات چیت میں اس بات کی امید جگائی تھی کہ دونوں فریقین اس بات کارضامندی ظاہر کرتے ہوئے ’’ فریم ورک کا مسودہ ‘‘پر رضامندی ظاہر کریں جسمیں طالبان کی جانب سے افغان کے علاقوں کا استعمال بین الاقوامی ’’ دہشت گرد‘‘ گروپس کی جانب سے استعمال نہیں کیاجائے گا۔

جمعہ کے روز خلیل زادہ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہاکہ ’’ ہم نے کسی بھی آخر ی معاہدے میں اسبات کی رضامندی ظاہر کی کہ افغان کی زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف بین الاقوامی دہشت گردوں کا استعمال کرنے دیاجائے گا‘‘ترکی کی درالحکومت میں روس کے اپنے ہم منصب سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہو ں نے یہ بات کہی اور بتایا کہ ہماری با ت چیت جنگ کو ختم کرنے ۔

امریکہ کی دستبرداری او رطالبان کی جنگ بندی کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے ‘ دونوں کا مسئلہ ان کے مستقبل کے متعلق افغان پر توجہہ مرکوز کئے ہیں۔

کابل کے ایک مقامی نظیررحمانی نے
الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ’’ ہم نہیں جانتے کہ امریکی افواج کے جانے کے بعد کیاہونے والا ہے۔

ہم بہت دور سے ائے ہیں اور کوئی بات چیت یاپھر معاہدہ ہوجائے جس کامقصد افغانستان کی تمام کمیونٹیوں میں امن قائم کیاجاسکے‘‘۔

افغان حکومت کو دوحا کی بات چیت سے ہٹادیاگیاتھا مگر صدر اشرف غنی نے کہاکہ امریکہ کی طرف سے بات چیت کرنے والوں نے پچھلے ماہ انہیں جاری بات چیت کے متعلق جانکاری دی تھی۔

خلیل زادہ کو توقع ہے کہ طالبان کے لئے وہ پیر کے روز افغان حکومت سے با ت چیت کریں گے۔طالبان نے افغان حکومت سے عمومی بات چیت کا یہ کہتے ہوئے انکار کردیاتھا کہ ’’ امریکہ کا پالتو‘‘ ایک پالتو ہے۔

امریکہ کی زیرقیادت ناٹو مشن برائے ٹرین کے حصہ کے طور پر 14ہزار امریکی سپاہی افغان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ‘ جو افغان فوجیوں کی مدد کررہے ہیں اور مشورہ دے رہے ہیں۔

امن کی طرف پہل کا موضوع حل کے مہینو ں میں اس وقت اٹھایاگیاجب طالبان یومیہ اساس پر ملک میں حملے کررہاتھا جس کی وکہہ سے بڑی تعداد میں عام شہری اور افغان سکیورٹی فورسس جاں بحق ہوئے ۔ ملک کے نصف حصہ پر مصلح گروپس کا کنٹرول ہے۔

شفیق اللہ نامی کابل کے ایک شہری جو ایک حجام کی دوکان میں کام کرتے ہیں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’ ہم نے بہت کچھ برداشت کرلیا‘ ہم چاہتے ہیں جنگ کا اب خاتمہ ہو۔

ہر روز نے قصور افغانیوں کی موت ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ہم افغان کوایک بہتر مقام بنانا چاہتے ہیں‘ ملک
کی تعمیر کے لئے ہم سخت محنت کررہے ہیں‘‘