دنیا میں کوئی قدر کرے نہ کرے

محمد مصطفیٰ علی سروری
جس برس میں نے اپنے ہاتھوں کو کھودیا وہ میری زندگی کا سب سے بہترین وقت تھا۔ یہ خیالات 34 برس کے ایک ایسے برطانوی نوجوان کے ہیں جس کو ایک موذی مرض نے ایسے آ گھیرا کہ ڈاکٹرس نے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کو کا کر اس کے جسم سے علحدہ کردیا۔ سال 2013 ء تک بھی لوئیس بالکل صحت یاب اور خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا ، وہ ایک ہوٹل کا مالک تھا، پھر ایک دن اس کو پیشاب میں خون آنے کی شکایت پر ڈاکٹر سے رجوع ہونا پڑا ، جلد ہی اس کے جسم کے مختلف حصوں کی رنگت بدلنی شروع ہوگئی ۔ ڈاکرس نے معائنہ کے بعد علاج تجویز کیا کہ لوئیس کو جو بیماری لاحق ہوئی ہے، اس کا ایک ہی حل ہے کہ بیماری سے متاثرہ اس کے اعضاء کو کاٹ کر اس کے جسم سے الگ کردیا جائے، پہلے تو اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا، اس کے بعد ایک ایک کر کے اس کے دونوں پاؤں کو الگ کردینا پڑا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ اس کا دوسرا بازو بھی الگ کردیا گیا۔ آخر میں لوئیس کو لاحق مرض کا انفیکشن اس کے چہرے پر حملہ آور ہوگیا اور جان بچانے کیلئے لوئیس کے دونوں ہونٹ اور ناک بھی کام کر الگ کردیئے گئے۔ ڈاکٹرس نے بتلایا کہ اگر مرض سے متاثرہ اعضاء جسم سے الگ نہیں کئے گئے تو اس کا پورا جسم خراب ہوسکتا ہے جس وقت لوئیس کے مرض کی تشخیص کی گئی، اس وقت ڈاکٹرس نے یہ بھی بتلا دیا کہ اس کے زندہ بچ جانے کی صرف 5 فیصد امید کی جاس کتی ہے ۔ لوئیس کے ہاتھوں پیروں اور پھر چہرے پر جس طرح سے سیاہی اور سوجن پھیل رہی تھی

اس کو خود اس کے عزیز و رشتہ دار بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے، لوئیس بھی اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اپنے طور پر خود سانس لے سکے۔ ڈاکٹرس نے اس کو زندگی بچانے والے آلات پر رکھا ہوا تھا۔ دنیا بھر کے لوگ لوگ لوئیس دیکھنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے تھے اور لوئیس کا تین برس کا لڑ کا اپنے پاپا کو غور سے دیکھتا تھا۔ وہ تو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے پاپا کے جسم پر چاکلیٹ لگادیا گیا ہے۔ لوئیس اب اپنی بیماری کے سبب دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں سے محروم ہوچکا تھا۔ اس کے ہونٹ اور ناک کو بھی کاٹ کر الگ کردیا گیا تھا اور جسم کے باقی صحت مند حصوں سے گوشت لیکر اس کے ذریعہ سے لوئیس کی ناک اور ہونٹ دوبارہ بنانے کی ڈاکٹروں نے کوشش کی اور خود لوئیس کیلئے اس کا اپنا چہرہ ناقابل یقین حد تک بدل چکا تھا اور اب لوئیس 34 سال کی عمر میں دوبارہ چلنے کا طریقہ سیکھ رہا ہے۔ اس کو دو مصنوعی پیر اور دو مصنوعی ہاتھ لگائے گئے ہیں۔ اب وہ اس قابل بھی نہیں کہ صرف اپنے طور پر اپنا منہ دھوسکے ۔ کپڑے پہن سکے ، یہاں تک کہ وہ ا پنا موبائیل فون خود نہیں ریسیو کرسکتا ہے، اس نے اپنے فون کو اب Auto Answer کے موڈ پر رکھ دیا ہے۔
اتنا سب کچھ ہوتا ہے ، اس کے بعد بھی لوئیس کہتا ہے کہ میری زندگی میں سب سے بہترین وقت وہی تھا جب میرے ہاتھ پاؤں میرے جسم سے الگ کردیئے گئے ۔ لوئیس نے اب ا پنے ادھورے جسم اور مصنوعی اعضاء کے سہارے جینا سیکھ لیا ہے ۔ موت کو خود سے قریب دیکھ کر دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ آنے والے لوئیس کی اس کہانی کو بی بی سی نیوز نے 22 جنوری 2015 ء کو “The Year I lost my limbs…” کی سرخی کے تحت پیش کیا ۔ میری دانست میں لوئیس کی زندگی کی یہ جدوجہد ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں محرومیوں کا رونا نہ روئیں بلکہ جو کچھ جتنا کچھ ہمیں دستیاب ہیں، اس کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھ کر خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا میں 28 جنوری 2015 ء کو اخبار کی خاتون صحافی نکھیلا ہنری نے کیرالا سے تعقل رکھنے والی ایک ایسی لڑکی کی حقیقی کہانی کو پیش کیا ہے جو دونوں آنکھوں سے محروم ہیں۔ جی ہاں حیدرآباد کے علاقہ تارناکہ میں واقع انگلش اینڈ فارن لینگویج یونیورسٹی کے شعبہ انگلش سے کیرالا کی اس لڑکی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری (پی ایچ ڈی) حاصل کی ہے ۔ 29 سالہ ایس ریم نامی یہ نابینا لڑکی نے اخبار کو بتلایا کہ جس وقت وہ ڈگری کی اسٹوڈنٹ تھی اس وقت وہ ا پنے دوست احباب سے کہہ کر ان کی آواز میں مواد ، اسباق (Content) ریکارڈ کروالیتی تھی اور اس ریکارڈ کو سن سن کر امتحان کی تیاری کی جاتی تھی لیکن اب کمپیوٹر اور سافٹ ویکر اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی تعلیم کیرالا کی اس لڑ کی کیلئے مشکل ثابت نہیں ہوسکی۔ یہی نہیں یہ نابینا لڑ کی اب ٹیچنگ میں اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہے اور ریڈیو پر بھی جزوقتی ریڈیو جاکی (RJ) کا کام کر رہی ہے۔ اپنی کمزوری کو اپنی ترقی کے راستے رکاوٹ کی نہ بناکر پوری خود اعتمادی کے ساتھ یہ لڑکی کہتی ہے کہ دو ایک نہیں پورے 150 بچوں کی کلاس کو بھی وہ تعلیم دلاسکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں کیرالا میں واقع اپنے آبائی مقام سے سینکڑوں کیلو میٹر دور شہر حیدرآباد میں آکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی اس لڑکی نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ٹیچرس کے اہلیتی امتحان (NET) میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے اور پرامید ہے کہ جلد ہی وہ ٹیچنگ میں اپنا کیریئر بھی بنالے گی۔
برطانیہ کا لوئیس ہو یا کیرالا کی ریم یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود پر آنے والی مصیبتوں کا سامنا کیا اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں چھوڑا۔ اب ذرا ان مسلم نوجوانوں کے بارے میں بھی سن لیجئے جنہوں نے چلتی ٹرین کے سامنے ٹھہر کر خود اپنی ہی تصویر کھینچنے کے شوق میں اپ نی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ 26 جنوری کو پیش آئے اس واقعہ کے بارے میں ہندی اخبار بھاسکر نے لکھا ہے کہ انجنیئرنگ کے چار دوست یعقوب ، اقبال افضل اور انیش 26 جنوری کی تعطیل کے دن دہلی سے آگرہ میں تاج محل دیکھنے کیلئے ایک کار میں نکلتے ہیں اور متھرا کے قریب ایک ریلوے ٹریک پر چلتی ٹرین کے سامنے ٹھہر کر ’’بہادری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود اپنے ہی خون سے اپنی تصویر کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کو یہ پڑھ کر تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ اس بہادری کا مظاہرہ صرف تین دوست یعقوب، اقبال اور افضل ہی کرتے ہیں اور ان کا ایک ڈرپوک دوست انیش اس بہادری کے مقابلے میں حصہ نہیں لیتا ۔ 27 جنوری 2015 ء کو بھی اخبارات نے ایک بڑی سی خبر شائع کی کہ ٹ رین کے سامنے ٹھہر کر اپنی تصویر کھینچنے کے شوق میں 3 نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کا ایک ساتھی انیش زندہ بچ گیا ۔
مسلمانوں کو اور خاص کر نوجوان طبقہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ خود ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں یا انہیں ان کے سرپرستوں نے اپنی نادانی سے ورثہ کے طور پر ان کیلئے چھوڑا ہے ۔ شائد یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا نوجوان مسئلہ چاہے کسی طرح کا بھی ہو اس سلسلے میں سازشی پہلو کو تلاش کر کے کسی نہ کسی کے سر الزام ڈال کر خود کو اطمینان کی کیفیت میں رکھنا چاہتا ہے۔

مسلمانوں کو روزگار نہیں ملتا کیونکہ فرقہ پرست ان سے امتیاز برتتے ہیں۔ مسلمانوں کو قرضے نہیں ملتے کیونکہ بینک انہیں مسلم ہے کہہ کر قرضے نہیں دیتا۔ مسلمان تجارت نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں کوئی سپورٹ نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو دنیا دہشت گرد سمجھتی ہے کیونکہ میڈیا انہیں دہشت گرد کہتا ہے۔ مسلمانوں نے 800 برس اس ملک پر حکومت کی اور آزادی کے بعد ان کے ساتھ زیادتی کی گئی اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنادیا گیا۔ مسلمانوں کو سب نے ملکر غربت افلاس اور پسماندگی کی کھائی میں ڈھکیل دیا ۔ مسلمانوں کے متعلق یہ اور بہت سارے ایسے ہی تجزیے ہر ایک عام و خاص کی زبان سے سننے کو ملتے ہیں لیکن میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ ٹھنڈے دماغ سے کچھ سوال ان دانشور حضرات سے کرنا چاہوں گا ۔ بالغرض دنیا ساری مل کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئی ہے تو خود مسلمان کیا کر رہا ہے۔ کیا بحیثیت مسلم اس کی کچھ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ احتساب کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ آخر حالات ایسے کیوں ہوگئے اور ان حالات میں قرآن مجید انہیں کیا کرنے کی ہدایات دنیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کیا ہیں۔ یہ سوال اس لئے بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جن پر بے شمار مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے لیکن ان کی ہمت نہیں ٹوٹی اپنے پیروں کو کھوکر بھی لوگوں نے مصنوعی پیروں کے سہارے اٹھ کر چلنا سیکھ لیا ۔ آنکھوں سے محرومی کے باوجود لڑکیوں نے پڑھ کر ثابت کیا کہ بینائی سے محرومی ان کی ترقی کے سفر کی رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ ایک سب سے بڑی شکایت مسلمان اپنی غربت اور غریبی کی کرتے ہیں اور شائد یہی سب سے بڑی ناشکری ہے ورنہ غریب تو دوسرے لوگ بھی ہیں کیا وہ بھی ہمیشہ غریبی کا رونا روتے ہیں۔ 28 جنوری 2015 ء کو بی بی سی نیوز میگزین نے کولکتہ سے سنجے مجمدار کی ایک رپورٹ نشر کی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق کولکتہ سے قریب ایک دیہی علاقہ میں سنتوش چودھری نامی ایک ٹیلر ہے جس نے اپنے چھوٹے سے گھر کے لئے فریج خریدنے کا خواب کوئی دس برس پہلے دیکھا تھا ۔ مجمدار نے خواب تو دیکھا مگر اس کی مختصر آمدنی اسکو گھر کے لئے فریج خریدنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، لیکن مجمدار نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ ہی غلط راستہ اختیار کیا ۔ ہاں اس نے اپنی کم ترین آمدنی کے باوجود چھوٹی چھوٹی بچت کرنے کی عادت ڈالی اور یوں دس برس بیت گئے ۔ تب کہیں جاکر مجمدار کے ہاں اتنی رقم جمع ہوئی کہ وہ اپنے گھر کے لئے ایک فریج خرید سکے ۔ بی بی سی کی اس رپورٹ کے مطابق صرف اکیلا مجمدار ہی نہیں بلکہ کولکتہ کے قریب وہ جس گاؤں میں رہتا ہے وہاں 200 لوگ رہتے اور ان سب میں ایک بھی گھر ایسا نہیں جہاں گھر والوں کے پاس فریج ہو۔ اس سے بڑھ کر غریبی اور خراب معاشی حالات کی میں دوسری کوئی مثال نہیں دے سکتا ہوں۔ اب ا پنے پورے گا ؤں میں مجمدار وہ پہلا شخص ہے جس کے گھر میں فریج آگیا ہے ۔ کہنے کا اور مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ غربت تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ہاں بھی ہے۔ مسائل تو دوسروں کو بھی درپیش ہیں کیا سبھی لوگ حالات کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر نہیں تو ہمارا حال ایسا کیوں ہے۔

ہمیں اس تعلق سے اپنا تجزیہ کرنا ہوگا کہ اگر ہم واقعی پریشان ہیں تو کیا ہم نے اپنے اور خدائے تعالیٰ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کی؟ وہ تو ہر ایک کی سنتا ہے اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ ہم ہی وہ بندے ہیں جو اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے راستہ پر چل کر اس کو راضی کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں تو ہماری فوری ضرورت ہے کہ ہم جلد سے جلد خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں، ہوش کے ناخن لیں ماشاء اللہ سے ہمارے ہاتھ پاؤں صحیح و سالم ہیں۔ ہماری بصارت بھی اچھی ہے ، صرف منفی سوچ ہمارے ذہنوں پر سوار ہے اور خدائے تعالیٰ کی اصل پہچان کو ہم بھول گئے جس دن ہم یہ بھولا ہوا سبق یاد کرلیں گے ۔ انشاء اللہ ہماری کامیابی کا سفر وہیں سے شروع ہوگا۔
لوگ ای میل کر رہے ہیں کہ مجھے میرا کالم انگریزی اور تلگو اخبارات میں لکھنا چاہئے، ان حضرات سے گزارش کروں گا کہ ٹھیک ہے ، آپ حضرات کا مشورہ سر آنکھوں پر مگر آپ کو کوئی بات اچھی لگے اور فائدہ مند دکھائی دے تو آپ کیوں خاموش اپنے حلقہ احباب اپنے ساتھیوں کو تو ضرور بتلائے گا۔ کیا پتہ ہمارا یہ کام ہمارے لئے توشہ آخرت ثابت ہو ویسے بھی اللہ رب العزت دلوں کا حال بہتر جانتا ہے ۔ وہی ہماری نیا پار لگا سکتا ہے ۔ بقول امجد حیدرآبادی
اے حضرت شیخ اپنی خبر لو پہلے
دامن خود موتیوں سے بھرلو پہلے
دنیا میں کوئی قدر کرے نہ کرے
تم آپ تو اپنی قدر کرلو پہلے
sarwari829@yahoo.com