دفعہ 370 کی تنسیخ کی کسی بھی کوشش کیخلاف انتباہ

نئی دہلی ؍ سری نگر 4 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے خبردار کیا ہے کہ دستور کی دفعہ 370 کی تنسیخ کی کسی بھی کوشش سے ریاست کے ہندوستان سے الحاق کا مسئلہ پھر چھڑسکتا ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی کے حالیہ تبصرہ کے بعد اِس مسئلہ پر سیاسی سطح پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ بی جے پی کا یہ ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کو دیئے گئے خصوصی موقف سے سیکولرازم کا کوئی تعلق نہیں اور پارٹی کا یہ احساس ہے کہ یہ دفعہ دراصل ہندوستانی شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک کا ایک ذریعہ ہے۔ مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے اِس بات کا اعادہ کیاکہ جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت جو خصوصی موقف کی ضمانت دی گئی ہے اُسے کسی صورت منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ اُنھوں نے اِس گنجائش کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا۔ اُنھوں نے کہاکہ خواہ نریندر مودی ہوں یا کوئی اور دفعہ 370 کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دفعہ برقرار ہے اور رہے گی۔ فاروق عبداللہ کی پارٹی کے رفیق دیویندر سنگھ رانا نے بی جے پی وزارت عظمیٰ امیدوار نریندر مودی کو پارٹی کے سینئر لیڈر اٹل بہاری واجپائی سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ اُنھوں نے اِس حساس مسئلہ سے خود کو دور رکھتے ہوئے تبصرہ بھی نہیں کیا کیونکہ اِس خصوصی موقف کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش سے جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ روابط کمزور پڑسکتے ہیں۔ چیف منسٹر عمر عبداللہ نے دہلی میں ایک پروگرام کے موقع پر کہاکہ دفعہ 370 جموں و کشمیر اور مابقی ملک کے درمیان ایک پُل کی طرح ہے اور اِسے کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کے نتیجہ میں تعلقات کمزور ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی لیڈر وجئے جالی کے نئی دہلی میں انڈیا ٹوڈے گروپ کے تحت منعقدہ پروگرام ایجنڈہ آج تک میں سوال کا جواب دیتے ہوئے عمرعبداللہ نے اِس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ دفعہ 370 کو اِس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے ریاست کا ملک کے مابقی حصہ سے دور کا تعلق ہے۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دفعہ 370 کو آخر اِس طرح کیوں پیش کیا جارہا ہے حالانکہ یہ جموں و کشمیر کے مابقی ہندوستان کے ساتھ روابط کا سنگ بنیاد ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اِس خصوصی موقف کو منسوخ کرنے کی کوئی بھی کوشش ہندوستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا مسئلہ دوبارہ چھڑجانے کا باعث بن سکتی ہے۔ بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے کہاکہ طویل عرصہ کے بعد دفعہ 370 پر ملک میں سنجیدگی سے بحث کی جارہی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اب تک اِسے سیکولر بمقابلہ غیر سیکولر کے طور پر پیش کیا جارہا تھا حالانکہ اِس دفعہ کا سیکولرازم سے کوئی تعلق نہیں۔