دارالمصنفین تعارف اور خدمات

مفتی امانت علی قاسمی
دارالمصنفین کے قیام کا خیال علامہ شبلی کے دل میں نہ جانے کب سے تھا ، مگر اس کا پہلا اظہار انہوں نے مارچ 1910 ء میں ندوۃ العلماء کے اجلاس دہلی میں کتب خانہ کی ضرورت کے سلسلے میں کیا ، اس اجلاس میں سید سلیمان ندوی نے بھی علامہ شبلی کے مشورے سے دارالعلوم کی جدید عمارت میں کتب خانہ کی ضرورت پر تقریر کی ، جس میں انہوں نے دارالمصنفین کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا :
’’کتب خانہ کے سوا ایک وسیع کمرہ ارباب قلم و مصنفین کے لئے بنایاجائے ، جس میں قوم کی ایک جماعت تصنیف و تالیف میں مشغول ہو اور اس عمارت کا نام دارالمصنفین ہو‘‘
یہ منصوبہ ابھی زیر غور تھا کہ ندوۃ العلماء میں شبلی کی مخالفت شروع ہوگئی ، جس سے بددل ہو کر شبلی نے ندوۃ کو خیرآباد کہہ دیا ، لیکن دارالمصنفین کے قیام کا منصوبہ سرد نہیں پڑا تھا ، بلکہ اس کے جائے وقوع کے سلسلے میں غور وخوض شروع ہوگیا۔ ، شبلی ندوہ میں ہی دارالمصنفین قائم کرنا چاہتے تھے لیکن حالات اس کے موافق نہ تھے ، چنانچہ مولانا مسعود علی ندوی کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’بھائی وہ لوگ دارالمصنفین ندوہ میں بنانے کب دیں گے کہ میں بناؤں ، میری اصل خواہش یہی ہے لیکن کیا کیا جائے ، حالانکہ اس میں انہی کا فائدہ ہے‘‘ ۔
مولانا حبیب الرحمن خان شروانی نے دارالمصنفین کے لئے اپنے وطن حبیب گنج کو پیش کیا تو شبلی کی رگ ایثار پھڑک اٹھی اور محبت بھرے لہجہ میں شروانی صاحب کو لکھا کہ : ’’آپ دارالمصنفین کو حبیب گنج لے جانا چاہتے ہیں تو میں اعظم گڑھ کو کیوں نہ پیش کروں ، اعظم گڑھ میں اپنا باغ اور دو بنگلے پیش کرسکتا ہوں‘‘ ۔

بالآخر شبلی نے اپنی موروثی جائداد میں ہی دارالمصنفین کی بنیاد رکھ دی ، تعمیر کا کام بھی شروع ہوگیا ، لیکن ابھی وقف نامہ ہی زیر تحریر تھا کہ 18 نومبر 1914 ء کو دارالمصنفین کی تکمیل کی حسرت لئے ہوئے قوم کا نیر تاباں غروب ہوگیا ۔ شبلی نے دارالمصنفین کا جو خاکہ تیار کیا تھا ، شبلی کے شاگرد باتوفیق بالخصوص سید سلیمان ندوی نے اس کی تعمیر اور شبلی کے تمام کاموں کی تکمیل کا تہیہ کرلیا ، شبلی کی وفات کے تین دن بعد ، جاں نثاران شبلی سرجوڑ کر بیٹھے اور حمیدالدین فراہی کی دعوت پر ’’اخوان الصفا‘‘ کے نام سے پانچ افراد پر مشتمل ایک مجلس تاسیسی قائم ہوئی جس کے ارکان یہ تھے ۔مولانا حمید الدین فراہی رئیس مجلس ، سید سلیمان ندوی ناظم ، مولانا عبدالسلام ندوی ، مولانا مسعود علی ندوی اور مولانا شبلی ندوی ۔ مولانا سید سلیمان ندوی اس وقت دکن کا لج پونہ میں پروفیسر تھے ، وہ استعفیٰ دے کر اعظم گڑھ آگئے ، مولانا عبدالسلام ندوی نے کلکتہ کو خیرباد کہہ کراعظم گڑھ کا رخ کیا ، مولانا مسعود علی ندوی نے بھی ان دونوں کی معیت میں مزار شبلی کے پہلو میں باقی زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا ۔ یہی عارضی مجلس ’’اخوان الصفا‘‘ گویا دارالمصنفین کا نقطہ آغاز ہے ۔

نظمائے دارالمصنفین : دارالمصنفین کے سو سال پورے ہورہے ہیں ، اس صد سالہ عہد کی کامیابی اور نیک نامی ان کے معماروں کی بلند حوصلگی اور علمی قابلیت کی بنیاد پر ہے ، شبلی کے بعد دارالمصنفین کے پہلے ناظم سید سلیمان ندوی ہیں جنہوں نے تقریباً تیس سال تک دارالمصنفین کو خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ، ان کے بعد شاہ معین الدین ندوی ، اس کے ناظم منتخب ہوئے ، جو تقریباً پچاس سال تک دارالمصنفین سے وابستہ رہے اور تقریباً اٹھائیس سال تک دارالمصنفین کے ناظم رہے ، ان کے عہد میں بھی دارالمصنفین نے خوب ترقی کی منزلیں طے کیں ، ان کے علاوہ ان کے نظماء میں صباح الدین عبدالرحمن ، عبدالسلام قدوائی (شریک ناظم) مولانا ضیاء الدین اصلاحی اور پروفیسر اشتیاق احمد ظلی شامل ہیں ۔
اراکین دارالمصنفین : دارالمصنفین کے موجودہ اراکین میں نواب مفخم جاہ بہادر صدر ، جناب سید حامد نواب ، ریاض الرحمن خان شروانی ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ، مولانا سعید محمد مجددی ، مولانا تقی الدین ندوی ، مرزا امتیاز بیگ ، ڈاکٹر سلمان سلطان ، پروفیسر اشتیاق احمد ظلی ، ظفر الاسلام خان ، ظفر الاسلام اصلاحی ، عبدالمنان ہلالی اور ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی شامل ہیں ۔
مقاصد : دارالمصنفین اپنے قیام کے وقت سے ہی اپنے مقاصد کی حصولیابی میں مصروف ہے ۔ سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین کو بہت جلد عالمی سطح پر متعارف کرادیا ، دارالمصنفین کے قیام کے مقاصد وہی تھے جو بیت الحکمت بغداد کے قیام کا تھا ’’دارالمصنفین کی تاریخی خدمات‘‘ کے دیباچہ میں اس کے مقاصد کو ان الفاظ میں تعبیر کیاگیا ہے :
(۱) ملک میں اعلی مصنفین اور اہل قلم کی جماعت پیدا کرنا
(۲) بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ کرنا
(۳) ان کی اور دیگر علمی ادبی کتابوں کی طبع و اشاعت کا انتظام کرنا
آج دارالمصنفین کی خدمات کے مطالعہ کے بعد پوری دیانتداری کے ساتھ یہ اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ دارالمصنفین اپنے مقاصد کی حصولیابی میں بہت حد تک کامیاب ثابت ہوا ہے
دارالمصنفین کی علمی مملکت : دارالمصنفین میں دارالتصنیف ، دارالاشاعت ، دارالطباعت ، شعبہ رسالہ معارف ، دارالکتب جیسے اہم شعبے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ دارالمصنفین کے کتب خانہ میں عربی ، فارسی ، انگریزی اور اردو کی بیش بہا کتابیں اور نادر مخطوطات موجود ہیں ، عربی مخطوطات میں کتاب الجمل ، شرح نہج البلاغہ ،کتاب المیزان ، احیاء العلوم اور فتاوی عالمگیری اور فارسی مخطوطات میں اکبر نامہ ، مونس الارواح ، سر اکبر روضۂ تاج محل ، کلیات کلیم ، ظفر نامہ امیر تیمور ، تاریخ فرشتہ ،قصص العجائب ، تزک جہانگیری ، سفینۃ الاولیاء تذکرہ مخزن الغرائب ،مرآۃ العالم ، فرہنگ جہانگیری ، کلمۃ الحقائق ، مدارج النبوۃ قابل ذکر ہیں ۔

ماہنامہ معارف : معارف کے اجراء کا خیال شبلی کے ذہن میں علی گڑھ کے قیام کے دوران ہی آگیا تھا ، لیکن کسی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ جب شبلی نے دارالمصنفین کا خاکہ تیار کیا تو اس میں ایک علمی رسالہ کا اجراء بھی شامل تھا ، شبلی نے اس کا نا م ’’معارف‘‘ رکھا اور اس کے اغراض و مقاصد کا خاکہ بھی تیار کردیا تھا ، شبلی کی ناگہانی وفات کی وجہ سے ان کی زندگی میں یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا ، جب ان کے لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے اپنے استاذ کی وصیت کے مطابق ان کے علمی خوابوں کی تکمیل کا بار گراں اٹھایا تو دارالمصنفین کے ساتھ اس علمی رسالہ کے اجراء کی بھی فکر دامن گیر ہوئی اور تقریباً ڈیڑھ پونے دو سال بعد جب دارالمصنفین نے جون 1916 میں اپنا پریس قائم کیا تو شبلی کا یہ دیرینہ خواب سید صاحب کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا ، معارف کا پہلا شمارہ جولائی 1916 میں نکلا ، یہ رسالہ دارالمصنفین کا علمی ترجمان ہے اس کے مقاصد وہی ہیں جو دارالمصنفین کے قیام کے ہیں ، سید صاحب نے معارف کے پہلے شمارے میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ معارف کے اجراء اس کے اغراض و مقاصد اور اس کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی ہے ، پہلے اداریے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو
’’حضرت الاستاذ علامہ شبلی دارالمصنفین کے ساتھ ساتھ معارف نام کے ایک ماہوار علمی اور دینی رسالہ کا تخیل بھی رکھتے تھے ، حاشیہ نشینان بساط شبلی نے اس محسن کی یاد میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنی بساط بھر ان کی تمام تحریکوں کو زندہ رکھیں گے ، دو سال کی گذشتہ مدت دارالمصنفین کے قیام و تاسیس میں صرف ہوگئی ، اب جب ادھر سے اطمینان ہوا تو دوسرے فرائض یاد آئے ، اس میں معارف کا اجراء بھی تھا ، ہم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ملک ایک خاص علمی رسالہ کی اعانت کے لئے کہاں تک تیار ہے تاہم ہر شخص اپنے فرائض کا ذمہ دار ہے ۔

1916 ء سے آج تک یہ رسالہ انتہائی پابندی کے ساتھ نکل رہا ہے جب کہ اس دوران سینکڑوں رسالہ نکلے اور حوداث کی نذر ہوگئے ، ڈاکٹر نعیم صدیقی نے’’سید سلیمان ندوی شخصیت اور ادبی خدمات‘‘ میں معارف کے سلسلے میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔
دارالمصنفین کی گولڈن جوبلی : 1965ء میں دارالمصنفین کی گولڈن جوبلی منائی گئی ، جس کی صدارت ڈاکٹر ذاکر حسین خان صدر جمہوریہ ہند نے کی ، اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنا قیمتی صدارتی خطبہ دیا ، جس میں انہوں نے دارالمصنفین کی عظیم الشان خدمات کا اعتراف کیا تھا ، اس کے بعد ہی حکومت ہند کے چند نمائندے دارالمصنفین آئے اور یہ پیشکش کی کہ دارالمصنفین کو سرکاری سرپرستی میں دے دیا جائے لیکن اس وقت کے ناظم شاہ معین الدین نے اسے سلب آزادی کے مترادف تصور کرتے ہوئے انکار کردیا ۔ یہی پیش کش خدابخش لائبریری پٹنہ اور رضا لائبریری رامپور کو بھی کی گئی ، تو ان دونوں اداروں نے یہ پیشکش قبول کرلی چنانچہ یہ دونوں ادارے آج حکومت کی تحویل میں ہیں
دارالمصنفین کے ممتاز اہل قلم: دارالمصنفین کے قیام کا مقصد ہی اہل قلم کی تربیت ہے ، واقعہ یہ ہے کہ دارالمصنفین نے پچاس سے زائد اہل قلم کی تربیت کا فریضہ انجام دیا ہے ، جن کے گوہر قلم کے درنایاب نے علمی لائبریری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے ، ان میں چند ممتاز نام یہ ہیں :
سید سلیمان ندوی ، عبدالسلام ندوی ، شاہ معین الدین ندوی ، عبدالباری ندوی ، ریاست علی ندوی ، ابوظفر ندوی ، صباح الدین عبدالرحمن ، ابوالحسنات ندوی ، سعید الانصاری ، مجیب اللہ ندوی ، اویس نگرامی ،عمیر الصدیق ندوی ، یوسف کوکن عمری ، عبدالسلام قدوائی ، شاہ نصر احمد پھلواری ، محمد منصور نعمانی ، ڈاکٹر نعیم صدیقی ، ضیاء الدین اصلاحی، عبیداللہ چِریّا کوٹی ندوی ۔

دارالمصنفین کی علمی خدمات : دارالمصنفین ایک ادارہ نہیں ایک تحریک ہے ، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دارالمصنفین کی خدمات ہمہ جہت ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ علمی میدان میں ان کی خدمات انتہائی درخشاں ہیں ۔ معارف کا اجراء اور اس کا اس تسلسل کے ساتھ جاری رہنا آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے ۔ دارالمصنفین نے اہل قلم کی جماعت تیار کرکے علمی دنیا پر بڑا احسان کیا ہے ۔ دارالمصنفین سے شائع ہونے والی علمی اور تحقیقی کتابیں ان سب پر مستزاد ہیں ۔ دارالمصنفین میں جن موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے اس میں سیرت نبوی ، سوانح و تذکرہ ، حدیث و فقہ ،تصوف ، تاریخ اسلام ، تاریخ ہند ،فلسفہ ، سائنس ، علم الکلام ، اردو ادب اور تاریخ اردو ادب وغیرہ شامل ہیں ۔ دارالمصنفین سے بعض اہم کتابوں کا ترجمہ کرایا گیا ہے ، اور زیادہ تر مستقل تصنیف ہیں ۔ اب تک تقریباً ڈھائی سو کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں ، سیرت کے موضوع پر سب سے پہلی کتاب سیرت النبی لکھی گئی ہے ، جو سات جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی دو جلد علامہ شبلی کی ہیں ، باقی جلدیں شاگرد رشید سید سلیمان ندوی کی ہیں ، اس کے علاوہ سید سلیمان ندوی کی دو کتابیں خطبات مدراس اور رحمت عالم سیرت کے موضوع پر طبع ہوئی ہیں ۔ سیر صحابہ کی بارہ جلدوں کا عظیم الشان کارنامہ بھی دارالمصنفین کا ہی حصہ ہے ، تاریخ اسلام کے سلسلے کا نمایاں کارنامہ ہے ، جس کی ایک جھلک یہاں پیش ہے :
۱ ۔ ۴ تاریخ اسلام (چار جلدیں) از مولانا شاہ معین الدین ندوی ، ۵۔۶ تاریخ دولت عثمانیہ (دو جلدیں) از ڈاکٹر محمد عزیز ، ۷۔۸ تاریخ صقلیہ (دو جلدیں) ۹ ۔ تاریخ اندلس از ریاست علی ندوی ۔ ۱۰ ۔ اسلام اور عربی تمدن ، ۱۱ عرب کی موجودہ حکومتیں از مولانا شاہ معین الدین ندوی ، ۱۲۔ تاریخ دعوت و عزیمت (دو جلدیں) از مولانا ابوالحسن علی ندوی ، ۱۳۔اسلام کا سیاسی نظام از مولانا اسحاق سندیلوی ، ۱۴۔ ہماری بادشاہی از مولانا عبدالسلام قدوائی ، ۱۵ ۔ عرب و ہند تعلقات ، ۱۶۔ عربوں کی جہاز رانی از سید سلیمان ندوی ۔
دارالمصنفین کی خدمات کا باب یہ بھی ہے کہ دارالمصنفین کے ذریعہ مختلف موضوعات پر سمینار کا سلسلہ جاری ہے ، حالات حاضرہ سے ہم آہنگ موضوعات کا انتخاب کرکے کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں فروری 1982 میں ’’اسلام اور مستشرقین‘‘ کے عنوان سے ہونے والا بین الاقوامی سمینار کافی اہمیت اور شہرت کا حامل ہے ۔ پہلی مرتبہ اردو زبان میں استشراق ، مستشرقین ، اغراض و مقاصد ، پس منظر اور مستشرقین کے مثبت اور منفی خدمات کا مفصل جائزہ دارالمصنفین کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آیا ،اس سے پہلے اگرچہ عربی اور انگریزی زبانوں میں یہ ذخیرہ موجودہ تھا لیکن اردو زبان میں اتنا بڑا ذخیرہ موجود نہیں تھا ، دارالمصنفین کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ’’استشراق و مستشرقین‘‘ کی پانچ جلدیں شائع کیں ، جس سے اردو قارئین کو استشراق کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے ۔