خورشید احمد جامیؔ کا رنگ تغزل انیس پروین

اردو غزل کو جن شاعروں نے جدید ترین اسالیب، نئی تراکیب ، استعاروں اور تشبیہوں اور اچھوتے انداز بیاں سے روشناس کروایا ان میں سرزمین دکن کے جانے مانے اور نامور شاعر خورشید احمد جامیؔ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جامی کی غزل میں جو لہجہ سنائی دیتا ہے وہ جدید غزل کے دوسرے لہجوں سے بالکل مختلف ہے ۔ ان کی غزل کا اپنا ایک انفرادی مزاج ہے جس میں غزل کے روایتی اسلوب اور تقلید سے دامن بچاتے ہوئے قدیم استعاروں کو نئے تلازموں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور بہت سے نئے استعارے وضع کئے گئے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے۔
لے کر نئے خیال کی قندیل ہاتھ میں
جامیؔ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے نئی منزل
نئی راہیں ، نئے شعلے نیا اسلوب دیتا ہوں
غزل کی آرزو کو وقت کے مکتوب دیتا ہوں
جامیؔ نے اردو غزل میں پہلی بار تجسیم یا Personification کو مستقل طور پر اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے ۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو شاعری کے اوائل کے اب تک کی شاعری میں تجسیم کا عمل ضرور رہا ہے لیکن جامیؔ سے قبل اسے مستقل طور پر اظہار کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بنایا گیا تھا بلکہ دوسری صفتوں کی طرح بعض بعض مواقع پر استعمال کیا گیا تھا ۔ جامیؔ نے اسے مستقل حیثیت دے کر اظہار کے سانچوں کو نئی سمت اور ایک نئی وسعت عطا کی ۔
ان کی غزلوں میں احساسات کی شدت ، تجربے کی گہرائی و گیرائی ، حقیقت نگاری ، صناعی اور سادگی و پرکاری سے آراستگی واضح طور پر اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ یہ کسی ایسے فنکار کی تخلیقات ہیں جو تاریخ ادب میں اہمیت اور انفرادیت تسلیم کروانا چاہتا ہے ۔ وہ اپنے احساسات اور تجربوں کو اکثر حسی پیکروں کے وسیلے سے پیش کرتے ہیں ان کی imagery میں متحرک تصویروں اور خیالی پیکروں کی تشکیل میں مرکب اور خیالی تشبیہوں ، استعاروں ، صفات اور افعال کا خاص دخل ہے جو قاری کے حواس ہی کو متاثر نہیں کرتے بلکہ اسکی فکر و تخیل کا احاطہ کرلیتے ہیں ۔ چند شعر ملاحظہ کیجئے۔
لرز گیا مری تنہائیوں کے شانے پر
کوئی خیال کسی دست مہرباں کی طرح
آرزوؤں کا امیدوں کا خیال آتے ہی
وقت نے گھور کے دیکھا مجھے قاتل کی طرح
سانس لیتے ہوئے زخموں سے تعارف ہے مرا
چلتے پھرتے ہوئے خوابوں سے شناسائی ہے
جامیؔ کے ہر شعر سے عصر حاضر کے انسان کی امیدوں ، آرزوؤں ، ناآسودگیوں ، محرومیوں اور غم روزگار و ذہنی انتشار کی حقیقی تصویر ، استعاروں اور کنایات کے لفظی پیکروں کے ذریعہ ذہن کے کینوس پر واضح طور پر ابھر آتی ہے ۔ ملاحظہ کیجئے۔
ترے قریب پہونچ کر بھی کم نہیں ہوتے
غم حیات نے جو فاصلے بڑھائے ہیں
سو بار بھی چاہے تو کوئی موت نہ آئے
اس دور میں شاید یہی جینے کی سزا ہے
اوراق آرزو پہ کہاں تک کوئی لکھے
ویرانیوں کے پاس فسانے ہیں اور بھی
جامیؔ نے اپنی غزلوں میں مرکبات کی بجائے زیادہ تر مفردات کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا ہے اور نئے نئے لفظی سانچے استعمال کئے ہیں مثلاً سلگتے واقعات ، خیالات کی جھیلیں ، سوالات کے جنگل ، یاد کے جھومر ، جلتی ہوئی تنہائیاں ، الفاظ کے شیشے ، قلم کے چاند، زخموں کے لباس وغیرہ ۔
جامیؔ کے فن کی معراج کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں انھوں نے کلاسیکی غزل کے آداب کو ملحوظ رکھا ہے وہیں جدید شاعری اور خصوصاً جدید غزل کے مزاج داں بھی ہیں ۔ یہی خصوصیت ان کو دور جدید کے شعراء سے اپنی انفرادیت منواتی ہے ۔ ان کی غزلوں میں رچی ہوئی نغمگی کا احساس ملتا ہے ۔ وہ نئے نئے لفظوں کے عاشق ہیں ۔ انھوں نے زندگی کی آسودگیوں اور آرزوؤں کو جہاں ’’صبح‘‘ کی علامت کا پیرہن دیا وہیں ناکامیوں اور ناتمامیوں اور تشنہ کامیوں کو ’’رات‘‘ کی علامت کا پیرہن دیا ہے ۔ ان کی غزلوں میں اشاریت اور ایمائیت کے ساتھ ساتھ ابہام بھی نظر آتا ہے جو نہایت ہی فنکارانہ مہارت کے ساتھ کہیں مدھم کہیں گہرے نقوش ابھارتا ہے اور تجربوں کی پیکر نگاری کے لئے ایک وسیع پس منظر کا کام دیتا ہے جس پر ذہنی اور جذبات و کیفیات کے خاکے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں اور قاری کا ذہن ان خاکوں میں کھوسا جاتا ہے۔
رہِ حیات میں کتنے ہی پیچ و خم آئے
بچھڑ گیا ہے کوئی کب ہمیں پتہ بھی نہیں
کیا جانئے کیوں دیکھ کے سوکھے ہوئے پتے
یاد آئے ہیں مجھ کو مرے ارمان بھی اکثر
جامیؔ نے غزل میں جو نئے تجربے کئے ہیں اس کے پامال الفاظ و تراکیب استعاروں اور تشبیہوں کو جس نئے اور دل موہ لینے والے انداز میں پیش کیا ہے وہ اردو شاعری میں ایک انمٹ نقش اور ایک خوشگوار اضافے کی حثیت کے حامل ہیں ۔ جامیؔ کی غزلوں میں خالص ’’جامعیت‘‘ نظر آتی ہے ۔ انھوں نے اپنے ہمعصر شعراء فیض ، فراق اور مخدوم وغیرہ کی تقلید کو روا رکھا اور نہ ہی جگر اور اصغر کا رنگ اختیار کیا ۔جامیؔ نے جدید غزل کو اپنے لہو سے لالہ زار بنایا اور اسے خوش رنگ و دلکش پیرہن عطا کیا لیکن زمانے سے ان کو صرف تشنگی اور تشنہ کامی ہی ملی ۔ ان کی انا ہمیشہ زخم خوردہ رہی ، زخم رستے رہے لیکن کسی نے ان زخموں پر مرہم نہیں رکھا ۔ زندگی سے تو انھیں کچھ نہ مل سکا لیکن موت کے مضبوط بازوؤں نے انھیں سہارا دے کر دائمی سکون ضرور بخش دیا ۔
ہائے اس دور میں شعروں کے چراغ
آپ اپنے ہی مزاروں پہ جلے