خواجہ میر درد کی شاعری میں تصوف کا رنگ

ڈاکٹر احسان عالم
خواجہ میر درد اٹھارویں صدی عیسوی میں ان شعراء میں شمار ہوتے ہیں جنہیں مولانا محمد حسین آزاد نے اردو کا بلند پایہ شاعر قرار دیا ہے ۔ خواجہ میر درد 1720ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد خواجہ محمد ناصر عندلیب ایک درویش اور خدا رسیدہ بزرگ تھے ۔ بسلسلہ نسب وہ نجیب الطرفین حسینی سید تھے ۔ باپ کی طرف سے ان کا سلسلہ نسب حضرت بہاء الدین نقشبندی سے اور ماں کی طرف سے ان کا نسب سید عبدالقادر جیلانی سے ملتا ہے  ۔ ان کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا تھا ۔
خواجہ میر درد کا شمار اپنے دور کے ممتاز صوفیوں اور بزرگوں میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے دور کے دیگر شعراء کی طرح صرف اپنی شاعری کا مزہ بدلنے کے لئے تصوف کا راستہ اختیار نہیں کئے ہوئے تھے بلکہ وہ اس کے ماہر تھے ۔ ان کی شاعری پر بھی تصوف کا پورا رنگ غالب ہے ۔ ان کی شاعری واردات کیفیات کی شاعری ہے ۔
خواجہ میر درد تاریخ کے اسی نازک دور میں پیدا ہوئے جب کہ دلی شہر بظاہر آباد لیکن اجڑنے کے لئے کھڑا دکھائی پڑتا تھا ۔ فتنہ ، فساد اور قتل و غارت گری کی آوازیں نہ صرف ہر طرف سنائی دیتی تھیں بلکہ مغلیہ سلطنت کا سورج بھی وقت غروب کو پہنچ چکا تھا ۔ خواجہ میر درد فارسی اور عربی کے علاوہ قرآن ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور علم تصوف پر بھی خاصی قدرت رکھتے تھے ۔ جس کی تصدیق ان کی مختلف تصانیف سے بھی ہوتی ہے ۔ اپنی تصنیف درددل میں ایک جگہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ :۔
’جناب اقدس کے ایماء کے مطابق وسط جوانی میں عقائد معقولات اور اصول تصوف وغیرہ کے علوم رسمیہ بعذر ضرورت حاصل کئے تھے (درد دل : ص : 188 ، خواجہ میر درد)
یہی وجہ ہے کہ ان  کی شاعری پر تصوف کا رنگ صاف دکھائی پڑتا ہے ۔ اردو ادب کے مشہور ناقد سنبل نگار کے مطابق :۔
’کچھ اپنی طبیعت کی افتاد اور کچھ مرد درویش کی صحبت کا فیض کہ 28 برس کی عمر میں کاروبار دنیا سے منہ موڑ کر درویشی اختیار کرلی اور 39 برس کی عمر میں والد کی رحلت کے بعد مسند نشینی ارشاد ہوگئے ۔ شاعری پہلے بھی کرتے تھے گوشہ نشینی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ مگر انداز کلام یکسر بدل گیا ۔ اب صوفی صافی تھی اور معشوق حقیقی کی زلف گرہ گیر کے اسیرِ شاعری میں بھی اس دائرے سے باہر قدم رکھنے کو ایک صوفی کی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ چنانچہ ان کا بیشتر کلام ایک متصوفانہ رنگ میں رنگا ہوا تھا‘ (اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ ص 26، سنبل نگار ، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ ، 2002ء)
قدرت اللہ قاسم نے بھی خواجہ میر درد کے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :۔
’چند مہینے مفتی دولت مرحوم و مغفور کی خدمت میں فنون رسمیہ کی تحصیل میں صرف کئے ۔ نوجوانی میں سپاہی پیشہ تھے لیکن تھوڑے دن ہوئے والد بزرگوار کے ایماء کے مطابق اس کام سے دستبردار ہو کر فقر و قناعت کے ساتھ سجادہ طاعت پر متمکن ہوا‘ (مجموعۂ نغز ص 240، قدرت اللہ قاسم ، مرتبہ حافظ محمود شیرانی ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ، مخزن نکات ص 102-103)
خواجہ میر درد کے اندر ادب و شاعری کا ذوق کم عمری کے زمانے میں ہی پیدا ہوگیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی عمر پندرہ سال کی تھی تب انہوں نے فارسی زبان میں اپنی پہلی تصنیف ’’اسرار الصلوۃ‘‘ کے نام سے لکھی ۔ اور جب ان کی عمر 20 سال کی ہوئی تو انہوں نے اپنے والد کی تصنیف ’’نالہ عندلیب‘‘ پر قطعہ تاریخ تصنیف لکھا جسے ان کے والد نے نہ صرف بے حد پسند کیا بلکہ اسے اپنی کتاب کے خطبے میں شامل کرلیا  وہ قطعہ یہ ہے :۔
سال تاریخ ایں کلام شریف کہ بسورہ حق الجذاب نماست
کرو الہام حق بغوش دلم نالۂ عندلیب گلشن ماست
درد ایک ایسے انسان تھے جنہیں قدرت نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت سے بھی نوازا تھا ۔ ان کے مزاج میں اعتدال ، توازن ، بردباری کی صفات موجود تھیں ۔ اس لئے جہاں جاتے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے اور مسند بلند پر بٹھائے جاتے ۔ نہ ادب آداب کی خلاف ورزی کرتے اور نہ دوسروں کو اس کی اجازت دیتے ۔ ان کی مجلس فقر ایک ایسی مجلس تھی جہاں بادشاہ بھی تخت سے اتر کر آتا تھا ۔ اسی لئے استغنا و خودداری ، ان کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی ۔ جیسا کہ یہ شعر اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے :
نہیں مذکور شاہاں درد ہرگز اپنی مجلس میں
کبھو کچھ ذکر کر آیا بھی تو ابراہیم ادھم کا
عام شعراء کے مزاج سے الگ خواجہ میر درد شاعری کے بارے میں رائے رکھتے تھے ۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی :
’درد کے نزدیک شاعری کوئی ایسا کمال نہیں ہے کہ آدمی اسے اپنا پیشہ بنالے اور اس پر ناز کرے ۔ وہ شاعری کو انسانی ہنروں میں سے ایک ہنر سمجھتے ہیں۔ بشرطیکہ اسے صلہ حاصل کرنے یا دنیا کمانے کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ شاعر کا منصب یہ نہیں کہ وہ شاعری کو مدح یا ہجو کے لئے استعمال کرے یا دنیا کمانے کے لئے دربدر مارا پھرے ۔ درد کے نزدیک شاعری ان معارف تازہ کا اظہار ہے جو قلب شاعر پر وارد ہوتے ہیں ۔ کلام موضوع و مربوط ایک عجیب لذت رکھتا ہے جس سے دل کی کلی کلی کھل اٹھتی ہے ۔ درد کے نزدیک شاعری ایک نہایت سنجیدہ سرگرمی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ شاعر اپنے وارداتِ قلبیہ اور تجربات باطنی کا اظہار کرے اور اس طور پر کرے کہ شعر سننے والے کے دل میں گھر کرلے ۔ اسی لئے انہوں نے شاعری کو مدح یا ہجو سے ملوث نہیں کیا اور شاعری میں ملا کر ایک کردیا ۔
انسانی فطرت کا سب سے قوی جذبہ عشق ہے اور یہی وہ جذبہ عشق ہے جسے اردو غزل کی روح کہا جاتا ہے ۔ عشق کی دو نوعیتیں ہوتی ہیں ایک مجازی دوسری حقیقی ۔ مجازی عشق وہ ہے جس میں ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے ۔ اس عشق میں احساس جسم موجود رہتا ہے اور جسمانی وصل کی چھپی ہوئی آرزو عاشق کے وجود کو سرشار رکھتی ہے ۔ اس عشق کی نوعیت یہ ہے کہ جب وصل محبوب حاصل ہوجاتا ہے تو اس میں وہ شدت اور تڑپ باقی نہیں رہتی جو کہ کوہ کن سے پہاڑ کھدواتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عشق کو عارضی تصور کیا جاتا ہے جب کہ دوسرا عشق حقیقی ہے جسے ہم عشق بے لوث بھی کہہ سکتے ہیں اس میں وصل کی تڑپ ، اضطرار کی کیفیت تو عشق مزاجی کی طرح ہی ہوتی ہے لیکن وصل جسمانی کی آرزو نہیں ہوتی ۔ یہ عشق اللہ سے کیا جاتا ہے اس عشق میں عاشق کا قلب ماسوا سے نہ صرف بالکل خالی ہوجاتا ہے بلکہ یہی وہ عشق ہے جس کے راستے پر چل کر صوفیہ منزل مقصود تک پہنچتے ہیں ۔ اسی کو عشق حقیقی کا نام دیا جاتا ہے ۔
درد کی شاعری میں دونوں طرح کے عشق کے نمونے ملتے ہیں ۔ درد کی عشقیہ شاعری کے بارے میں خلیق الرحمن اعظمی کی رائے یہ ہے کہ :
’’خواجہ میر درد کی شاعری کا عاشق اپنے مزاج کے اعتبار سے میر کی شاعری کے عاشق سے بہت ملتا جلتا ہے ۔ دونوں کے یہاں دھما چوکڑی اور کشتم کشتا کے بجائے سپردگی اور گداختگی ملتی ہے ۔ دونوں آہستہ آہستہ سلگتے ہیں ۔ یکایک بھڑک نہیں اٹھتے ۔ ایک مدت تک اپنی دل کو بہلاتے پھسلاتے رہتے ہیں ۔ تغافل کا جواز بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ محبوب سے شکوہ شکایت کرنے میں ڈانٹتے پھٹکارتے نہیں دھمکی یا چیلنج نہیں دیتے ۔ نرم اور مانوس لہجہ میں کچھ سرگوشی اور چمکارنے کے انداز میں باتیں کرتے ہیں‘‘۔
خواجہ میر درد کی شاعری کے اس پہلو کو ان کے اس اشعار سے بھی سمجھا جاسکتا ہے :
دل دے چکا ہوں اس بت کافر کے ہاتھ میں
اب میرے حق میں دیکھئے اللہ کیا کرے
عرق کی بوند اس کی زلف سے رخسار پر ٹپکی
تعجب کی ہے جاگہہ یہ پڑی خورشید پر شبنم
درد کے تصور عشق کے مطابق عشق سے ہی نظام کائنات قائم ہے ۔ عشق ہی انسان کو علویت کا مقام بخشتا ہے ۔ جب عشق کی حکمرانی قائم ہوتی ہے تو انسانی اقدار پروان چڑھنے لگتی ہے ۔ غرض یہ کہ درد کے یہاں نہ صرف عشق تصوف کی پہلی منزل ہے بلکہ اسے وہ اپنے اشعار میں بھی بار بار بیان کرتے ہیں ۔ دیکھئے ان کے یہ اشعار:
باہر نہ آسکی تو قید خودی سے اپنی
اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا
یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جاسکے
جس مسند عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گذر ہوئے تعقل کے قدم کا
خواجہ میر درد کی شاعری ایسے پراثر انداز میں صوفیانہ تصورات کا اظہار کرتی ہے کہ درد اور تصوف ایک ہوجاتے ہیں اور یہی ان کی انفرادیت بھی ہے ۔ اسی صوفیانہ انداز سے درد کے یہاں عظمت انسان کا تصور پیدا ہوتا ہے جو طرح طرح سے ان کی شاعری میں ابھرکر آتا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لئے ان کے ان اشعار کو پڑھنا ہوگا :
باوجودیکہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہونچا کہ فرشتو کا بھی مقدور نہ تھا
جلوہ تو ہر ایک طرح کا ہر ایک شان میں دیکھا
جو کچھ کہ سنا تجھ میں سو انسان میں دیکھا
انساں کی ذات سے ہے خدائی کے کھیل یاں
بازی کہاں بساط پر گر شاہ ہی نہیں
درد نے اپنے اشعار میں کثرت سے صوفیانہ تصورات و اصطلاحات کا استعمال کیا مثلاً حقیقت و مجاز ، عشق و عقل ، قلب و نظر ، ذکر جلی و خفی، دل زنداں و دل مردہ ، جبر و اختیار ، خلوت در انجمن ، سفر در وطن ، خودی ، بے ثباتی و بے اعتباری ، بقا و فنا ، مکاں و لامکاں ، وحدت و کثرت ، جزو  کل ، اور توکل و فقر کو نمایاں طور پر اپنی شاعری میں جگہ دی ہے اور یہ تمام تصورات جذبے کے ساتھ مل کر نہ صرف درد کے تجربے کا حصہ بن گئے ہیں بلکہ ان سے ان کے کلام میںاثر انگیزی بھی پیدا ہوگئی ہے ۔ دیکھئے یہ چند اشعار :
ارض و سماں کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سماسکے
اے درد مثل آئینہ ڈھونڈ اس کو آپ میں
بیرون در تو اپنی قدم گاہ ہی نہیں
اس طرح ہمیں درد کی غزلوں میں ایک نشاطیہ رنگ نظر آتا ہے لیکن کہیں کہیں ان غزلوں میں درد کی ٹیس محسوس ہوتی ہے لیکن درد غموں سے لڑنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ اس لئے ان کے حزنیہ اشعار میں ایک درد آمیز لذت محسوس ہوتی ہے :
جان سے ہوگئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو طرح سے مر کر دیکھا
انداز و ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
زخمی جو ہوچکا ہو کسی کی نگاہ کا
خلاصہ یہ کہ درد کی شاعری میں ہمیں سوچنے اور غور کرنے والے ذہن کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس اس دور کے کسی اور شاعر کے یہاں نہیں ملتا ۔ درد کے یہاں احساس فکر کے تابع ہے ، جب کہ میر نے اپنی شاعری میں فکر کو احساس کا تابع رکھا ہے ۔ اسی سے ان دونوں شاعروں کی انفرادیت جنم لیتی ہے ۔ اردو شاعری میں یہی وہ فکری رجحان ہے جو غالب سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ یہاں بھی ابھر کر ایک نئے عروج سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ اگر درد اور غالب کی شاعری کا ایک ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں غالب کے یہاں وہی انداز فکر اور رویہ ملے گا جو درد کا تخلیقی رویہ ہے ۔ اسی لئے درد اور غالب کے لہجے اور الفاظ میں بڑی مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ سچ کہا جائے تو خواجہ میر درد اردو شاعری میں اسی فکری رجحان کے قافلہ سالار ہیں ۔ یہی اردو شاعری کی صوفیانہ روایت ہے اور انہی معنی میں درد ایک قابل قدر صوفی شاعر ہیں ۔