حیدرآباد جو کل تھا محمد ریاض الحسن

محبوب خان اصغر
حیدرآباد کے ماضی سے آگہی اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک ہم محترم ریاض الحسن صاحب سے آگاہ نہیں ہونگے ۔ محمد ریاض الحسن کی شخصیت کی تعمیر میں جو عوامل کارفرما رہے ان میں حیدرآباد کی تہذیب اور ثقافت قابل ذکر ہیں اور ان ہی کے زیر سایہ ان کی نشو و نما اور تربیت ہوئی ۔ 15 جون 1938 میں ضلع ورنگل کی خاک سے ان کا خمیر اٹھا اور وہیں سے فکر و آگہی ، بصیرت اور وجدان کی دولت بھی انہیں ملی ۔ ان کی سادگی ضرب المثل ہے ۔ خلوص ، چاہت اور شرافت کا پیکر ہیں ۔ ورنگل ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی جو کہ آزاد ریاست حیدرآباد کا اور اب نئی ریاست تلنگانہ کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔

سنٹرل مڈل اسکول اور گورنمنٹ ہائی اسکول ہنمکنڈہ میں بھی چند برسوں تک ان کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا ۔ ریاست حیدرآباد کے دو مشہور تعلیمی اداروں نظام کالج اور عثمانیہ انجینئرنگ کالج میں بھی آپ نے تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد کے جن تعلیمی اداروں نے مقامی روایات، مقامی اقدار اور مقامی کلچر کو فروغ دیا اور اس کی حفاظت کی اس میں نظام کالج کا نہایت اہم کردار رہا ہے ۔ انہوں نے اپنے ماضی کے حوالے سے بتایا کہ 1952 میں جب وہ نظام کالج پہنچے تو انہیں لگا کہ وہ انگلستان کے ایک مشہور پبلک اسکول میں ہیں  ۔انہیں یہاں کا تعلیمی اور غیر تعلیمی ماحول بالکل مختلف معلوم ہوا ۔ جناب ریاض صاحب کے مطابق انہوں نے نظام کالج کے طالب علموں اور لکچرروں میں ایک ایسی Informality یا خیر سگالی دیکھی جو دوسرے کالجوں میں شاید ہی مل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ہمعصروں میں پروفیسر جی این راجورکر ، شیام بنیگل اور پروفیسر بشیر الدین قابل ذکر ہیں اور جو شخصیات آگے چل کر دکن کی تہذیب اور کلچر کی علم بردار بن گئیں ان میں شری بھارت چند گپتا ، پروفیسر ایم ایم تقی خان ، جناب عابد علی خان ، جناب محبوب حسین جگر اور دوسرے شامل ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت چند جی جو ان کے ہم عصر تھے اب مسدی لال جویلرس کے مالک ہیں ۔ آج بھی اسی تپاک سے ملتے ہیں ۔ بڑے ہی رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے انسان ہیں ۔ اسپورٹس بالخصوص کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے ریاض صاحب نے بتایا کہ نظام کالج میں دوران تعلیم جو ٹیم انڈیا کے ممبر رہے ان میں ایم ایل جئے سمہا (مرحوم) مرتضی علی بیگ مرحوم ، عباس علی بیگ مرحوم شامل ہیں ۔ انہوں نے بڑی مسرت سے کہا کہ نظام کالج آج بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس کا شمار ہندوستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے ۔ اس کے مشہور سالار جنگ ہال کے در ودیوار میں پنڈت نہرو ، سروجنی نائیڈو کی آوازیں جذب ہیں ۔ اگھورناتھ چٹوپادھیائے کی اپنی گونج دار آواز میں نظموں کا پڑھنا اور مخدوم اور ساحر کی نغمہ سرائی بھی انکی سماعتوں کو آج تک گرماتی ہے ۔

انہوں نے نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے نام سے موسوم جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعلی حضرت کو بیسویں صدی کا شاہجہاں کہیں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔ ان کے آرکٹکچرل ورثے میں جامعہ عثمانیہ ، عثمانیہ دواخانہ ، ہائی کورٹ اور قانون ساز اسمبلی جیسی خوبصورت عمارتیں شامل ہیں جن کی وجہ سے حیدرآباد نہ صرف ایک پایہ تخت بلکہ ایک تاریخی شہر بن گیا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ بالخصوص آرٹس کالج کی عمارت نہ صرف ملے جلے ہندو مسلم آرکٹکچر کا ایک بین الاقوامی سنگ میل ہے بلکہ نظام سابع نے اردو کو اسکی نئی جامعہ کا میڈیم آف انسٹرکشن بنا کر اردو کو جو کہ ایک قومی زبان تھی بین الاقوامی زبان کا رتبہ بخشا ۔ اس جامعہ میں نہ صرف آرٹس یا ادبی کورس کو اردو میں پڑھایا جاتا تھا بلکہ سائنٹیفک ، ٹکنیکل اور میڈیکل کی تعلیم بھی اردو میں دی جاتی تھی اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا ۔ انہوں نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ دہم تک اردو ہی انکا ذریعہ تعلیم رہا اور آج بھی انہیں نالچہ ، قرنبیق اور استوانہ جیسے لفظ یاد ہیں  ۔ انہوں نے کہا کہ جس ادارہ نے اردو کو یونیورسٹی سطح تک کا میڈیم آف انسٹرکشن بنادیا وہ ’’دارالترجمہ‘‘ تھا ۔ انہوں نے کہاکہ اس ادارے کیلئے نامی گرامی مشاہیر کو غیر معمولی مشاہروں پر مقرر کیا گیا ۔ مجلس وضع اصطلاحات کیلئے ماہرین لسانیات سے استفادہ کیا گیا ۔ ایسے میں جامعہ کا ایک کارنامہ ہی کہا جائیگا جس نے عالمی سطح پر ریاست حیدرآباد کی توقیر بڑھائی اور برطانوی صحیفہ نگار کو یہ کہنا پڑا کہ ’’میں نے سارے عالم میں بہترین عمارتوں کو بہ چشم خود دیکھا ہے مگر حیدرآباد کی جامعہ عثمانیہ فن تعمیر کا لاجواب نمونہ ہے‘‘ ۔ انہوں نے بتایا کہ اردو دہلی اور لکھنؤ کے کوچوں میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی  ۔اس زبان نے میر اور غالب جیسے سخنور پیدا کئے ۔ لیکن حیدرآباد نے اردو کو ایک مکمل زبان بنایا اور کوئی تین دہائیوں تک اہلیان حیدرآباد نے اپنی مادری زبان میں تعلیم پا کر سندیں حاصل کیں ۔ اردو زبان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے سبب لوگوں میں اپنے کلچر اور باریکیوں کو سمجھنے کا شعور حاصل ہوا اور ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا

ریاض الحسن نے ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جامعہ عثمانیہ سے 1960 میں بی ای کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وسائل آب میں ایم ایس سی 1970 میں انگلینڈ میں پاس کیا ۔ حیدرآباد اور دہلی میں پانچ سال کارگزار رہے اور انیس برس انگلستان میں ملازمت اختیار کی ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے وسائل آب اور آبپاشی کے کنسلٹنٹ کی حیثیت سے مشرق وسطی ، مشرق بعید اور افریقہ کے چالیس سے زائد ملکوں میں کام کرنے کا انہیں اعزاز حاصل ہے جن میں چین  ، ہندوستان ، مصر ، مراقش ، کینیا اور ترکی قابل ذکر ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق متوسط مگر تعلیمیافتہ گھرانے سے ہے ۔ان کے والد محمد سلیمان مرحوم آندھرا اور مدراس یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر تھے ۔انہیں سات لڑکے تھے جن میں یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ چھ بڑے بھائیوں کی رحلت ہوچکی ہے ۔ اہلیہ کا نام رخسانہ ہے جو کہ ریٹائرڈ میڈیکل پریکٹیشنر ہیں ۔ صاحبزادے مہدی حسن برطانیہ کے انعام یافتہ صحافی ہیں ، براڈکاسٹر اور مصنف بھی ہیں ۔ ان دنوں واشنگٹن میں الجزیرہ ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر ہیں ۔ صاحبزادی روحی صاحبہ برطانیہ ہی کی انعام یافتہ شحصیت ہیں اور آج کل آئی ٹی یعنی Independent Television News میں بحیثیت سینئر پروڈیوسر اور ایڈیٹر خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ خود بھی آزادانہ طور پر صحافت سے جڑے رہے اور کچھ انگریزی تصانیف بھی رقم کی ہیں ۔ 1965ء میں تحصیل علم اور تلاش روزگار کیلئے انگلستان کا رخ کرنے والے ریاض الحسن لگ بھگ چار دہوں بعد وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوشی کے بعد حیدرآباد لوٹ آئے ہیں ۔ اس طویل عرصہ میں انہوں نے محنت اورلگن کے ساتھ ارتقائی منازل طے کئے ۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآبادی صرف سعودی کی آئیل ریفائنری میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں جہاں وہ حیدرآباد دکن کے سفیر کی حیثیت سے یہاں کی تہذیب کو پیش کررہے ہیں ۔

دیار غیر میں ادبی ماحول سے متعلق بتایا کہ وہاں انہوں نے چند عاشقان اردو کو ساتھ لیکر HDA یعنی حیدرآباد دکن اسوسی ایشن قائم کی تھی اور چار سو سالہ جشن حیدرآباد بھی منایا تھا ۔ مذکورہ اسوسی ایشن کی وساطت سے کسی نہ کسی موضوع پر ادبی نشستیں رکھی جاتی تھیں ۔ انہوں نے ماضی کے حوالے سے اسٹینلی اسکول کے مشاعرے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سارے ہندوستان کے شعراء مثلاً مجروح ، ساحر ، جوش اور علی سردار جعفری شریک تھے ۔
ہم نے ملٹری ایکشن کے بابت سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ 1947میں ان کے بڑے بھائی کا تبادلہ ورنگل سے اورنگ آباد بحیثیت ڈپٹی کلکٹر ہوا تو وہ انہیں بھی اپنے ساتھ اورنگ آباد لے گئے جہاں انہوںنے چھٹویں اور ساتویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کی ۔ اورنگ آباد میں تین سال رہے ۔ اور ان کی عمر کوئی دس سال رہی ہوگی ۔ اس عمر میں انہیں حیدرآبادی سیاست کا اور نہ ہی ہندوستانی سیاست کا کوئی علم تھا نہ ہی دلچسپی ۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران دو اہم تاریخی واقعے ہوئے ۔ 15 اگست کو ہندوستان کی آزادی کا جشن اورنگ آباد میں ،بڑے ہی زور و شور سے منایا گیا ۔ اورنگ آباد ایک سرحدی بارڈر ڈسٹرکٹ تھا جہاں سے ہندوستان کی سرحد صرف 30 یا 40 کیلومیٹر دور تھی ۔ دوسرا اہم واقعہ ملٹری ایکشن کا تھا جو ستمبر 1948 میں قتل و خون کے درمیان واقع ہوا ۔ متذکرہ ضلع میں شدید تناؤ تھا اور مہینے میں کئی بار کرفیو کا نفاد بھی ہوا کرتا تھا ۔ ان کے بھائی اور بھابی گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے تھے ۔ اس کے باوجود وہ موقع پا کر باہر نکلتے اور رضاکاروں کے مارچ اور پریڈ کو دیکھا کرتے تھے ۔ انہوں نے پرانی یادوں کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ وہ ایک جلسے میں پہنچ گئے جسے رضاکاروں کے چیف قاسم رضوی مخاطب کررہے تھے ۔ ان کے ہاتھ میں حیدرآباد کا جھنڈا تھا ۔ وہ بار بار رضاکاروں سے کہہ رہے تھے اس جھنڈے کو ہاتھ سے جانے نہ دو ۔ کوئی ستّر سال بعد وہ پولیس ایکشن سے متعلق سوچتے ہیں  تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ انہوںنے بتایا کہ سندر لال کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ کے مطابق 23 ہزار لوگ مارے گئے ۔ نیز انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد حیدرآباد میں کئی سیاسی ، جغرافیائی اور تعلیمی تبدیلیاں آئیں لیکن یہاں کے باشندوں نے اپنے اقدار اور گنگاجمنی تہذیب کو کبھی نہیں کھویا ۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس ایکشن کے فوری بعد جنہیں ریاستی وزیراعلی کا قلمدان ملا وہ بورگل رام کرشنا راؤ تھے جو کلچر اور تہذیب کی ایک مثال تھے ۔
حیدرآباد کے قدیم Land mark سے متعلق انہوں نے بتایا کہ رود موسی میں 1952 تا 1960 کنارے بیٹھ کر پانی سے کھیلا جاتا تھا ۔ ان دنوں نالے کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی صاحبزادی نے برطانیہ کے ITV کیلئے ہندوستانی ماحولیات پر ایک ڈاکومنٹری بنائی ہے جس میں موسی ندی کے زوال کے اسباب بتائے اور اس سے ہونے والے منفی ماحولیاتی اثرات کو پیش کیا گیا ۔ حکومت تلنگانہ موسی ندی کو Restore کرنے کے اقدامات کرے گی ۔ اس طرح انہوں نے عثمان ساگر یا گنڈی پیٹ کو پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ بتایا ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں آمد و رفت کے ذرائع میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی شامل تھیں ، جن کی کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ شاید حیدرآباد میٹرو کی شروعات کے بعد ڈبل ڈیکر بسوں کی کمی محسوس نہ ہو ۔

ریاض الحسن نے اعلی حضرت کے عہد حکومت کی ایک شاہی رسم کا یوں ذکر کیا کہ کاچی گوڑہ لنگم پلی میں ایک پیالس تھا جہاں نواب آف مسولی پٹنم کے چھوٹے صاحبزادے رہا کرتے تھے ۔ انہیں اعلی حضرت چھوٹے شہزادے کے نام سے پکارا کرتے تھے جو ان کی والدہ کے رشتہ دار تھے ۔ اس پیالس میں تینوں وقت کا کھانا کنگ کوٹھی کے توشہ خانہ مبارک سے آیا کرتا تھا ۔ ایک بار جب وہ اپنی والدہ کے ہمراہ سہ پہر کے وقت موجود تھے  ۔شاہی سواری ایک بڑا طبق لیکر آئی ۔ جب اس طبق کو کھولا گیا تو مختلف خورد و نوش کے ساتھ کٹوری میں ملائی تھی ۔ ملائی والی کٹوری کو صاف کرکے چھوٹے شہزادے نے اس میں ایک اشرفی رکھ دی اور طبق کو دربان کے حوالے کردیا اور مسکراتے ہوئے مجھے اور میری والدہ کو دیکھا اور کہا جب کبھی نظام سابع کے پاس سے کوئی خاص کھانا یا میٹھا آتا ہے تو اسے قبول کرنے کے بعد ایک اشرفی کے ساتھ خالی  برتن لوٹائے جاتے ہیں ۔
انہوں نے حیدرآباد کے شیعہ سنی اتحاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں دونوں فرقے ایک دوسرے کی عزت کیا کرتے تھے ۔ اور حیدرآبادی کلچر کا اہم حصہ بھی ہوتے تھے مگر بین الاقوامی سیاست کا اثر کچھ یوں ہوا کہ اسلام کے سب سے اہم پیام رواداری (tolerance) کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسان کی زندگی میں رفتار شکن حالات آتے ہیں ۔ تھک کر بیٹھنے کے بجائے اپناسفر جاری رکھنا چاہئے ۔ پابند ڈسپلن اور وقت کی قدردانی یہ دونوں چیزیں انسان کو اسکی منزل تک بہرحال پہنچاتی ہیں ۔