حکومت کی مخالفت اور ملک سے غداری میں فرق محسوس کریں: کنہیا کمار

ملک کے جمہوری اقدار کو بگاڑنے کیخلاف طلبہ کی جدوجہد، سماجی انصاف کے بغیر ترقی کا تصور محال، صدر جے این یو کی پریس کانفرنس

حیدرآباد۔ 24 مارچ (سیاست نیوز) حکومت کی مخالفت اور ملک کی مخالفت میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ دیش بھکتی اور مودی بھکتی میں جس طرح فرق مٹانے کی کوشش ’’بھکت‘‘ کررہے ہیں، اسی طرح حکومت اور ملک کی مخالفت کو یکساں ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جوکہ ملک کے نظام کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی یونین صدر کنہیا کمار نے آج سندریا وگنان کیندر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے بتایا کہ جو لوگ ملک کے جمہوری اقدار کو بگاڑنا چاہتے ہیں، ان کے خلاف طلبہ کی یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ کنہیا کمار نے بتایا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں جو احتجاج جاری ہے، وہ درحقیقت حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی (ایچ سی یو) سے شروع ہوا احتجاج ہی ہے۔ حب الوطنی کے اظہار و تشریح کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے وطن کی تشریح کریں کیونکہ جو لوگ حب الوطنی کا ثبوت مانگ رہے ہیں، وہ وطن کی تشریح غلط انداز میں کرتے ہوئے عوام میں تفریق پیدا کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دستور میں جو پہلی سطر تحریر کی گئی ہے، اس میں لکھا گیا ہے کہ We the people of India یہ سطر واضح کرتی ہے کہ ہندوستان کیا ہے لیکن سماجی عدم مساوات، مذہبی منافرت، قحط سالی، کسانوں کی خودکشی، حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے مظالم کے ذریعہ اس تشریح کو بگاڑا جارہا ہے۔ سماجی انصاف اور مساوات کے بغیر ملک کے جمہوری نظام و ترقی کا تصور محال ہے۔ فی الحال ملک میں عوام میں تفرقہ ڈالتے ہوئے عدم مساوات کو بڑھاوا دینے کی کوشش جاری ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اندرون دو برس مودی چھاپ غبارے کی ہوا اُتر چکی ہے اور دو سال کے اندر اندر وکاس سے ہندو راشٹر کی طرف ملک کا حکمراں طبقہ رُخ کرچکا ہے۔ یہی نریندر مودی انتخابی مہم کے دوران ملک میں مندر سے بیت الخلاء کی تعمیر پر زور دے رہے تھے، وہ نریندر مودی اب ایک مرتبہ پھر ہندو راشٹر کے نظریہ کی بات کررہے ہیں۔ جو نریندر مودی انتخابات سے قبل گجرات ماڈل، بلٹ ٹرین اور دیگر ماڈلس کی بات کررہے تھے اب ایک مرتبہ پھر رام مندر کے ماڈل کی سمت متوجہ ہوچکے ہیں۔ کنہیا کمار نے بتایا کہ اُن کی نظر میں سرحد پر جان دینے والا، کھیت میں جان دینے والا، تعلیمی ادارہ میں جان دینے والا یا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے جان دینے والا شہید ہے اِسی لئے شہید کا احترام وہ کرتے ہیں کرتے رہیں گے۔ انھوں نے طلبہ کی تحریککو سیاست پر مبنی قرار دینے کی کوششوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اگر اپنے گھر کی حفاظت کرنا اور اپنا حق مانگنا سیاست ہے تو پھر جدوجہد کسے کہتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی طلبہ کے گھر ہیں جنھیں بچانا طلبہ کی ذمہ داری ہے، اِسی طرح دیش ہر دیش واسی کا گھر ہے اِسے بچانا ہر دیش واسی کی ذمہ داری ہے۔ ہندوستان کسی ایک ذات، مذہب، طبقہ کا ملک نہیں ہے بلکہ ہندوستان دنیا میں شاید واحد ایسا ملک ہے کثرت میں وحدت کا نظریہ پایا جاتا ہے۔ کنہیا کمار نے بتایا کہ جے این  یو اور ایچ سی یو طلبہ صرف اپنے حقوق کے لئے نہیں بلکہ ملک کو بچانے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور حکومت ملک کی جامعات پر حملے کرتے ہوئے طلبہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جس کی مثال حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں روہت کا واقعہ، جے این یو میں ملک سے غداری کے مقدمات، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو برخاست کرنے کی سازش، الہ آباد یونیورسٹی میں جاری صورتحال، ایف ٹی آئی آئی، پونے، یادو پور کے علاوہ دیگر کیمپس کو وار زون میں تبدیل کرنے کی سازش ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ تعلیمی اداروں اور جامعات میں بعض ایسی تنظیمیں سرگرم ہیں جو طلبہ کے حقوق کے بجائے حکومت کی خواہشات کی تکمیل کے لئے سرگرم ہیں۔ اُنھوں نے بالواسطہ طور پر اے بی وی پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ یہ لوگ دیش بھکتی کے نام پر مودی بھکتی کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی واقعہ کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اُنھوں نے کہاکہ یونیورسٹی میں دو روز قبل وائس چانسلر کے جائزہ لینے پر جو ہنگامہ آرائی ہوئی، اُس کے متعلق جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں، اُن میں بتایا جاتا ہے کہ طلبہ کو مشتعل کیا گیا اور یہ اُسی تنظیم کا کام ہے جو حکومت کی مرضی اداروں پر مسلط کی کوشش میں مصروف ہے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے واقعات کو کنہیا کمار نے دردناک و شرمناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے جس غیر ذمہ داری کے ساتھ پولیس کے ذریعہ طلبہ کو نشانہ بنایا، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود یونیورسٹی انتظامیہ مخصوص نظریے کے ماننے والوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ کنہیا کمار نے بتایا کہ تحریک میں شامل طلبہ کا تعلق بھول جانے والوں سے نہیں ہے بلکہ یاد دلانے والوں سے ہے اور یہ جو جنگ شروع ہوئی ہے یہ جنگ بھول جانے اور یاد دلانے والوں کے درمیان جاری جنگ ہے جس میں یاد رکھنے والوں کی کامیابی یقینی ہوگی کیوں کہ تحریک آزادی کے دوران دی گئی قربانیاں آج تک یاد ہیں جس کے نتیجہ میں ہم ایک مرتبہ پھر ملک کی حفاظت اور ملک کو مخصوص نظریات سے آزاد کروانے کی جدوجہد کریں گے۔