حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

قاضی سید شاہ صوفی فرحان شاہ ولی اللھی

حضرت علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۴؍ شوال المکرم ۱۱۱۴ھ کو ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک جید عالم اور مشہور بزرگ تھے۔ فتاویٰ عالمگیری کی نظرثانی اور اصلاح میں آپ بھی شریک تھے۔ شاہ صاحب کا سلسلۂ نسب والد ماجد کی طرف سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے، اس لحاظ سے آپ خالص عربی النسل اور نسباً فاروقی ہیں۔
پندرہ سال کی عمر میں آپ نے والد ماجد کے ہاتھ پر بیعت کی، انھوں نے آپ کو علوم باطنی کی طرف توجہ دلائی اور آپ ان کی زیر نگرانی اشغالِ صوفیہ میں مشغول ہوئے۔ اسی سال آپ نے بیضاوی شریف کا ایک حصہ پڑھ کر مروجہ نصاب تعلیم کی تکمیل کی۔ واجد ماجد نے اس تقریب میں بڑے پیمانے پر خاص و عام کی دعوت کی اور دستار بندی کی رسم ادا ہوئی۔ بعد ازاں دو تین سال کے عرصہ میں آپ نے علومِ باطن میں بھی کمال پیدا کرلیا، پھر آپ کی عمر کے سترہویں سال والد ماجد سخت بیمار ہوئے اور پھر اسی حالتِ مرض میں آپ کو بیعت و ارشاد کی اجازت دے دی اور ۱۱۳۱ھ میں اپنے بلند اقبال بیٹے کے لئے درس و ارشاد کی مسند خالی کردی۔
قیامِ حرمین شریفین کے زمانے میں شاہ صاحب متعدد علماء و مشائخ سے کسب فیض کرتے رہے۔ پہلی مرتبہ آپ نے ہندوستان میں شیخ محمد افضل خاں المعروف بہ حاجی سیالکوٹی سے حدیث شریف پڑھی، پھر مدینہ منورہ میں شیخ ابوطاہر محمد بن ابراہیم مدنی سے سند حاصل کی۔ شیخ ابوطاہر، شاہ صاحب کے بڑے معتقد تھے، اکثر فرماتے کہ ’’ولی اللہ الفاظ کی سند مجھ سے لیتے ہیں اور میں معنی کی سند اُن سے لیتا ہوں‘‘۔ شیخ ابوطاہر کے علاوہ شاہ صاحب نے شیخ وفد اللہ بن شیخ سلیمان مغربی کی درسگاہ میں بھی شرکت کی اور مؤطا امام مالک بہ روایت یحییٰ بن یحییٰ اول تا آخر سنی۔ اس کے بعد شیخ محمد سلیمان مغربی کی تمام مرویات کی اجازت لے لی۔ شیخ ابوطاہر مدنی نے تمام طرق صوفیہ کا جامع خرقہ بھی اسی بابرکت سفر میں شاہ صاحب کو عنایت فرمایا۔
شاہ صاحب اسلام کے ان جلیل القدر علماء میں سے ہیں، جن کی شہرت و عظمت زمان و مکان کی حدود سے آگے بڑھ چکی ہے۔ آپ کا شمار عبقرین میں ہوتا ہے۔ آپ جیسی پایہ کی شخصیتیں اور یگانہ رزگار ہستیاں بہت کم وجود میں آتی ہیں۔ آپ کے علمی کارناموں، غیر معمولی ذہانت اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کے ہمعصر علماء نے آپ کا ذکر بڑی قدر و منزلت سے کیا ہے کہ ’’اگر آپ کا وجود گزشتہ زمانے میں صدر اول میں ہوتا تو مجتہدوں کے پیشوا اور مقتدا مانے جاتے، بلکہ ان کے سرتاج بنائے جاتے اور امام الائمہ کا گراں قدر خطاب پاتے‘‘۔ یقیناً آپ کے علمی و ذہنی کمالات اسی تصرف و توصیف کے لائق ہیں۔
جب آپ کی عمر شریف ۶۱سال سے کچھ زیادہ ہوئی تو مرض الموت نے آگھیرا اور چند روز کی خفیف سی علالت کے بعد آسمانِ علم کا یہ آفتاب ۲۹؍ محرم الحرام ۱۱۷۶ھ بوقت ظہر افق دہلی پر ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا اور اپنے پیچھے بے شمار کواکب و نجوم کو چمکتا دمکتا چھوڑگیا، جو اس کی مستعار روشنی سے اب تک منور ہیں۔