حضرت سیدنا ابراہیمؑ کی زندگی کے ہر موڑ پر ایثار و قربانی

مسجد عالیہ میں تاریخ اسلام لیکچر، ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کاخطاب
حیدرآباد 27 ستمبر (راست) ابوالانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ابتلاء و آزمائش کے دشوار گزار اور صبر آزما مراحل سے بھری ہوئی ہے۔ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے اس میں سرخروئی اور سربلندی کے لئے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر ایثار و قربانی کے انمول اور زرین باب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے تیرہ و تاریک دور میں انسانیت کو درس ہدایت دیا جبکہ پورا معاشرہ ضلالت و گمراہی کی عمیق وادیوں میں بھٹک رہا تھا۔ کفر و شرک میں مبتلا قوم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مختلف دلائل کے ذریعے ہدایت کے راستے کی طرف بلایا۔ وقت کا نمرود اپنی قوت اور طاقت کے زور پر اپنی خدائی کو انسانوں سے منوا رہا تھا۔ پوری قوم اپنے آباء و اجداد کے طریقۂ عبادت و پرستش کی بجا آوری کو اپنے لئے نجات کا ذریعہ مان رہی تھی۔ اسی گمراہی اور ہدایت سے ناآشنا قوم کو توحید کا درس دینا جوئے شیر لانے کے برابر تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان نامساعد حالات میں جب کہ گھر، خاندان اور معاشرہ میں کسی سے خیر کی اُمید نہیں تھی، اکیلے تن تنہا خدا کے حکم اور اس کی تائید سے اعلان حق کو پھیلانے کا عزم مصمم کرتے ہوئے قوم کو ایک مرکز توحید پر جمع کرنے کا تہیہ کیا۔ جب آپ کی دعوت عام ہوئی تو معاشرہ کے بدطینت افراد اس دعوت کے خلاف کمربستہ ہوگئے اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ وقت کے نمرود نے آپ کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ آپ اپنے رب سے مایوس ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ سلامتی کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہوجائے۔ حق کے پیغام کو عام کرنے کے لئے کئی خطرناک مراحل سے آپ کو گزرنا پڑا۔ ریگستان کے بے آب و گیاہ میدان میں اپنی ایک بیوی اور شیر خوار بچے کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں نکلنے کی بھی منزل آئی، ایک سخت مرحلہ آخرش وہ بھی آیا کہ حکم خداوندی میں اپنے بوڑھاپے کے اکلوتے سہارے فرزند دلبند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں ذبح کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ ان خیالات کا اظہار کانفرنس ہال جامع مسجد گن فاؤنڈری میں تاریخ اسلام لکچر کے 703 ویں نشست کو بعنوان ’’سیرت ابراہیمؑ کا پیغام اُمت محمدی ﷺ کے نام‘‘ ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد نے کیا۔ نشست کا آغاز حافظ محمد شاہد حسین کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ مقرر نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اس سے بڑھ کر تسلیم و رضا کا اور کیا مظاہرہ ہوسکتا ہے کہ ایک باپ نے اپنے اطاعت گزار بیٹے کے گلے پر چھری چلادی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے کھلی آزمائش قرار دیا۔ اسی کی جزاء تھی کہ اپنی تیزی کے باوجود وہ کند ہوکر رہ گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسمٰعیل علیہ السلام کو چھری کے نیچے سے صحیح و سلامت نکالا اور ان کے بدلے ایک تندرست مینڈھا جنت سے بھیجا کہ اس کی قربانی کی جائے۔ چنانچہ ہر سال قربانی کی یہ سنت دنیا کے کروڑوں مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اخلاص اور ایثار رائیگاں نہیں جاتا بلکہ وہ سعادت عظمیٰ اور لازوال کامرانی ہاتھ آتی ہے جو مخلصین اور محسنین کے لئے مقدر کردی گئی۔ سیرت ابراہیم علیہ السلام سے اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہی پیغام ملتا ہے کہ اہل باطل کی مخالفت و مخاصمت کفر و شرک کے ماحول اور الحاد و بُت پرستی کے مسموم اور مکدر ماحول میں حضرت ابراہیم کے اُسوۂ حسنہ سے یہی درس ملتا ہے کہ اپنوں کی طرف سے مخالفتوں کے طوفان برپا ہو یا غیروں کی طرف سے مخاصمتوں کی یلغار ہو، معاشرہ کی مروجہ رسمیں و رواج مانع و مزاحم ہو یا حکومت وقت متحارب و متخاصم ہوجائے، تمام نامساعد و ناخوشگوار احوال و کوائف میں غیر ضروری مصالحت وحدانیت کا طریقہ، دعوت اور داعی دونوں کے وجود کے لئے سم قاتل ہے۔ مقصد سے والہانہ وابستگی اور اس راہ میں صبر و استقلال کا مظاہرہ ہی رحمت خداوندی کا سبب اور یہ سعادت و کامرانی کی کلید ثابت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ عالمی امامت کے لئے جس سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے اسے اپنائے بغیر کوئی گروہ یا فرد منصب قیادت پر فائز نہیں ہوسکتا۔ راہ حق کی شاہراہ کانٹوں کی رہ گزر سے ہوکر طے کی جاتی ہے۔ تب ہی وہ گروہ کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پُرخار راہ کو سر کرنے میں کامیاب رہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام انسانوں کا رہنما قرار دیا۔ جناب غلام یزدانی کنوینر محفل نے شکریہ ادا کیا۔