حضرت زبرقان ؓبن بدر کو عہد صدیقی میں اپنے قبیلے کو اِرتداد سے روکنے میں نمایاں کامیابی

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا ’’تاریخ اسلام‘‘ اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب

حیدرآباد ۔31 اگسٹ( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی فتح سے پہلے ہی اس کی نوید عطا فرما دی تھی اور جب مکہ مکرمہ فتح ہو گیا تو عرب ایک دوسرے سے ملتے اور کہتے کہ اہل حرم پر حضور انور ؐ نے فتح پالی۔ یہ فتح الفتوح اور مطلق فتح اور کامل غلبہ ہے اس کے بعد حضور اقدس ؐ سے کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا اسی لئے فتح مکہ کے بعد جو افراد اور عرب قبائل اسلام سے دور تھے وہ گروہ در گروہ داخل اسلام ہونے لگے۔ ان میں اہل مکہ و طائف و یمن و ہوازن اور اطراف و اکناف کے چھوٹے بڑے قبائل عرب شامل ہیں۔ عرب میں سب سے بڑا قبیلہ قریش تھا چوں کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور کئی خصوصیات کے حامل تھے اور ان کی سرداری معلوم و مسلمہ تھی۔ قبائل عرب کی نگاہ قریش پر ٹکی تھی جب قریش کے روساء نے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کر کے فتح مکہ کے بعد قریش کے تقریباً سبھی لوگ مشرف بہ اسلام ہو چکے اور عام طور پر مان لیا گیا کہ یہ دین حق سارے عالم میں پھیل جاے گا تو ہر طرف سے بارگاہ رسالت پناہیؐ میں سفارتیں اور وفود آنے لگے جو اطاعت کیشی اور قبول اسلام سے مالا مال ہوتے رہے انہی میں سے ایک بنو تمیم کا وفد بھی تھا جس میں قبیلہ کے شاہی خاندان کے افراد تھے ان میں حضرت زبرقان بن بدر بھی شامل تھے اور جنھیں نگاہِ رحمۃ للعلمینؐ نے دولت ایمان سے نواز دیا۔ ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۱۰‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت الیاس علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں حضرت زبرقان بن بدرؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت زبرقانؓ کا اصلی نام حصین تھا۔ وہ امرؤ القیس کے پوتے تھے۔ جدی سلسلہ مناہ بن تمیم سے جا ملتا ہے ان کی کنیت ابو سدرہ تھی۔ وہ تمیمی سعدی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے پناہ حسن ظاہری اور خوبصورتی سے مالا مال کیا تھا۔ اسی لئے وہ ’’زبرقان‘‘ یعنی چاند سے معروف ہوے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی سردار تھے اسلام لانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت و جاہ میں اور زیادتی فرمائی تھی رسول اللہ ؐ نے انھیں خاص انعامات سے بھی نوازا۔ اور انھیں ان کی قوم کے صدقات کا متولی مقرر فرمایا۔ حضرت زبرقانؓ کو حضور انورؐ کی ذات اطہر سے خاص شیفتگی اور محبت تھی اسلام لانے کے بعد سے ان کے حالات میں زبردست تبدیلی آگئی وہ اور زیادہ ہردلعزیز اور محبوب ہوگئے۔ دین پر استقامت، خداترسی، عبادات اور اخلاقی جواہر کے باعث ان کی زندگی مثالی بن گئی ۔ خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ کے عہد میں اپنے قبیلہ کو ارتداد سے روکنے میں ان کے استقلال اور اثر نے بہت کام کیا۔ اسلام پر ثابت قدمی اور بنو تمیم کو اسلام پر قائم رکھنا بلا شبہ ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ خلیفہ دوم فاروق اعظمؓ نے بھی اپنے عہد میں حضرت زبرقانؓ بن بدر کو ان کے قبیلہ کی امارت کے منصب پر برقرار رکھا۔ حضرت زبرقانؓ بڑے حق گو اور راست باز تھے اسی طرح سخاوت، شجاعت اور بلند اخلاق میں بھی بے نظیر تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی۔