حضرت خواجہ الطاف حسین حالیؔ (شخصیت اور کارنامے)

ڈاکٹر امیر علی
سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد حکومت میں ملک ہرات سے ایک عالم حضرت خواجہ ملک علی ہندوستان آئے ۔ بادشاہ خود ذی علم اور عالموں کا بڑا قدردان تھا ۔اس نے خواجہ ملک علی کے علم و فضل اور اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوکر انہیں پانی پت میں جاگیر عطا کی ۔ یہاں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی ۔ یہاں ان کی اولاد خوب پھلی پھولی ۔ ان کی پندرھویں نسل میں حضرت خواجہ ریزد بخش نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ انہیں 1837 ء (1253 ھ) میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام خواجہ الطاف حسین رکھا گیا ۔ یہی الطاف حسین حالی کے نام (تخلص) سے سارے ہندوستان میں شہرت پائی اور علم و ادب کے میدان میں بڑے بڑے کام انجام دیئے اور پانی پت کا نام سارے ملکوں میں روشن کردیا۔
حالیؔ کی ابتدائی تعلیم پانچ سال کی عمر سے شروع ہوئی۔ انہوں نے عربی ، فارسی ، اردو اور مذہبی کتابیں پڑھیں۔ اس وقت کے دستور کے مطابق انہوں نے قرآن مجید حفظ کیا۔ حالیؔ ابھی نو (9) سال کے تھے کہ ان کے والد حضرت خواجہ ایزد بخش کا انتقال ہوگیا ۔ بڑے بھائی خواجہ امداد حسین نے ان کی پرورش کی ۔ گھر کی مالی حالت نے حالیؔ کو باقاعدہ مدرسہ کی تعلیم سے محر وم رکھا ۔ مگر حالیؔ تحصیل علم کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ علم کا شوق اور ذہانت اتنی تھی کہ اس کی کسر پوری ہوجاتی تھی ۔ حالیؔ کی شادی کم عمر ہی میں کردی گئی ۔ حالانکہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ ابھی تو وہ بہت کچھ پڑھنا لکھنا اور علم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ شادی تو ہوگئی مگر حالیؔ دہلی جاکر مزید علم حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ ایک دن چپکے سے رات کے وقت گھر سے نکلے اور دہلی کی طرف روانہ ہوگئے ۔ پانی پت سے دہلی (55) میل کا فاصلہ انہوں نے پیدل طئے کیا۔ 1854 ء میں دلی پہنچے تو اتنے بڑ ے شہر میں نہ کسی سے کوئی جان پہچان تھی اور نہ ہی پاس میں پیسہ تھا ۔ یہاں آکر انہیں پتہ چلا کہ جامع مسجد کے قریب ایک مسجد میں ’’حسین بخش کا مدرسہ‘‘ ہے جہاں پر غریب لڑ کوں کو مفت تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ حالیؔ اس مدرسے میں داخل ہوئے اور وہاں انہوں نے مولوی نوازش علی کی نگرانی میں علم حاصل کرنا شروع کردیا ۔ یہیں مسجد کے فرش پر سو رہے تھے اور جو مل جاتا کھالیتے۔ حالیؔ مولوی نوازش علی کے علاوہ ، مولوی فیض حسن ، مولوی امیر احمداور مولوی سیہد نذیر حسین سے بھی علم حاصل کئے اور ان کی تربیت سے فیض یاب ہوئے ۔ دہلی میں اُس وقت بڑے بڑے شعراء ، ادیب ، عالم اور اہلِ کمال موجود تھے اور ان کے فر و فن کا طوطی بول رہا تھا اور آئے دن ہر طرف ادبی مشاعرے ہوا کرتے تھے ۔ حالیؔ کو بھی مشاعروں کا چسکا لگ چکا تھا اور وہ ان مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور اسی دوران حالیؔ کو شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا اور اسی طرح حالی کی دلی کی آب و ہوا راس آگئی اور رفتہ رفتہ وہ ایک کامیاب شاعر و ادیب بن گئے۔

دہلی میں حالیؔ کی ملاقات کئی نامور شاعروں سے ہوئی جن میں مرزا اسد اللہ خان غالبؔ بھی تھے جن کا اس دور میں بڑا شہرہ تھا ۔ دلی کے قیام کے زمانے میں حالیؔ نے شاعری میں ’’خستہ‘‘ تخلص اختیار کیا تھا مگر مرزا غالبؔ کے مشورے سے انہوں نے اپنا تخلص بدل کر ’’حالیؔ‘‘ رکھ لیا اور اسی سے وہ ادبی دنیا میں مشہور ہوئے ۔ اسی زمانے میں حالیؔ نے اپنی چند غزلیں مرزا غالبؔ کو پیش کیں۔ مرزا غالب بہت کم کسی کو شعر کہنے کا مشورہ دیتے تھے ۔ مگر حالیؔ کا کلام مرزا غالب کو بہت پسند آیا اور انہوں نے خوب داد دی اور کہا کہ : ’’میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں یتا مگر ت مہاری نسبت میرا خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کرو گے۔
دلی میں حالی کی ملاقات سر سید احمد خان سے ہوئی۔ حالیؔ پہلے سر سید کو زیادہ نہ مانتے تھے کچھ تھوڑے بہت بدگمان بھی تھے مگر جب ان کی ملاقات سرسید سے ہوئی تو پہلی ہی بار میں وہ سرسید سے بہت متاثر ہوئے اور اُن کے خلوص اور کام کی اہمیت کو سمجھ گئے اور دل و جان سے اُن کے ساتھی بن گئے اور یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہا ۔ سر سید بھی حالیؔ میں چھپے ہوئے علمی جوہر کو پہچان لیا تھا ۔ سر سید نے حالیؔ سے خواہش کی کہ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ شاعری سے بڑے بڑے کام لیتے ہیں اور کیوں نہ آپ بھی اپنی شاعری اور علمی صلاحیتوں سے قوم و ملت کو جگانے اور ان ہیں سدھارنے کا کام لیجئے۔ سر سید نے جو کہا تھا حالیؔ نے ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں اسے یوں درج کیا ہے۔

’’قوم کے ایک سچے خیر خواہ (سر سید) نے غیرت دلائی کہ خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہے۔ عزیز ذلیل ہوگئے ۔ شریف خاک میں مل گئے ۔ علم کا خاتمہ ہوگیا ۔ دین کا صرف نام باقی ہے ۔ افلاس کی گھر گھر پکار ہے۔ ایسے میں جس سے جو کچھ بن آئے سو بہتر ہے۔ نظم کہ سب کو مرغوب ہے ، قوم کو بیدار کرنے کے لئے کسی نے نہیں لکھی‘‘۔
سر سید کی باتوں کا حالیؔ پر بہت گہرا اثر ہوا اور اسی کا نتیجہ ’’مسدس حالیؔ‘‘ ہے جو ’’مسدس مد و جنت اسلام‘‘ کے نام سے 1879 ء میں شائع ہوئی ۔ اس مسدس نے مسلمانوں کو غیرت دلائی اور سوتے سے جگاکر اُن میں نئی تعلیم اور نئی زندگی کی طرف متوجہ کردیا ۔ اس طرح سر سید کی بدولت ’’قوم کو شاعر مل گیا ‘‘ اور ’’شاعر کو قوم مل گئی ‘‘۔ مسدس حالی میں پہلی بار شائع ہوئی تو ہر طرف ہلچل مچ گئی ۔ لوگ پڑھتے تھے اور روتے تھے ۔ لوگوں نے مسدس کی بہت تعریف کی مگر سب سے زیادہ قدر سر سید نے کی۔ انہوں نے حالی کو لکھا کہ

’’اگر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ تو کیا لایا تو میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا اور کچھ نہیں‘‘۔
ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر حالیؔ گہری نظر تھی۔ حالیؔ قوم کے سچے ہمدرد اور صلح کل انسان تھے ۔ وہ اپنی شاعری سے قوم کو خواب غفلت سے جگانا چاہتے تھے ۔ اسی لئے انہوں نے قدیم رنگ شاعری کو یکسر ترک کردیا اور اُس کی جگہ جدید خیالات اور طرز فکر کو اپنی شاعری میں جگہ دی اور ان ہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں نیا اسلوب اپنایا تھا اور جن موضوعات پر وہ زور دیتے رہے وہ وقت کا اہم تقاضہ تھے، خواہ ان ہیں دل و دماع، معاشرہ اورسماج قبول کرے یانہ کرے ۔ حالیؔ کی ایک مشہور غزل کچھ اس طرح ہے۔ ملاحظہ ہو :

اس کے جاتے ہی کیا ہوگئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل ترکی صورت
ہے غمِ روزِ جدائی نہ نشاطِ شبِ وصل
ہوگئی اور ہی کچھ شام و سحر کی صورت
اپنے جیسوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
واعظو آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے خود بن گئے ڈر کی صورت
کیا خبر زاہدِ قانع کو کہ کیا چیز ہے حرص
اس نے دیکھی ہی نہیں کسیۂ زر کی صورت
شوق میں اس کے مزہ ، درد میں اس کے لذت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مضر کی صورت
رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت
یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سو بار
پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت
ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت
1904 ء میں حالیؔ کو ان دیرینہ علمی اور ادبی خدمات کے صلہ میں حکومت کی جانب سے ’’شمس العلما‘‘ کا باوقار خطاب عطا کیا گیا اور ان کی خدمات کو سراہا گیا ۔ حالیؔ نے طویل عمر پائی اور آخری سانس تک اردو زبان و ادب کی خدمت میں لگے رہے ۔ مگر حالیؔ کی صحت رفتہ رفتہ سات چھوڑنے لگی اور آخر کار 31 ڈسمبر 1914 ء کو انہوں نے آخری سانس لی اور اپنی جان ، جانِ آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے اور اپنے آبائی وطن پانی پت میں ہی مشہور صوفی درویش حضرت بو علی شاہ قلندر ؒ کی درگاہ کے احاطہ میں آپ کی جسدِ خاکی کو سپرد لحد کردیا گیا۔
مت سہل اُنہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں