’’حالی کی مسدس مدو جزر اسلام‘‘

انیس عائشہ
شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی (1837-1914) نے جس وسیع بصیرت کے تحت مسدس ’’مدو جزر اسلام ‘‘ لکھی بجا طور پر اقبال کی کہی ہوئی شاعر کی تعریف کو ثابت کرتی ہے۔
قوم گو یا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل حکمت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفلِ نظم حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نواہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد ہو کوئی عضو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم میں ہوتی ہے آنکھ

مولانا حالی نے اس طویل نظم میں عرب کی ابتر حالت جو اسلام سے پہلے کی تھی پھر اللہ کے رسولؐ کی بعثت، ان کی تعلیمات، اسلام کا عروج ، مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، سماجی اور دیگر ترقیات میں سبقت بیان کی ہے ۔ پھر زوال اور خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے زوال پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ اسلامی وراثت اس کا حاصل ہونا پھر کھودینا اعتقاد ، خلوص، سماجی رسوم و عقائد اسلام اور تاریخ کی کشش اور رقومات اور اخلاقیات پر بحث کی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ضمیر کی آواز نے کبھی بھی اسلام کا درجہ کم ہونے نہیں دیا ۔ یہ ضمیر کی وہ آواز ہے جو اس بات کی قائل ہے کہ عروج و زوال تو ہوسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ عروج ایک صیغۂ ماضی بن جائے۔ ہمیں بیماری اس وقت گھیرتی ہے جب ہماری قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے ۔ علامہ اقبال قوم کے زوال پر اسی طرح فکرمند تھے۔ انہوں نے کہا کہ قوم اپنی تقدیر خود بناتی ہے ۔ زوال دراصل زوال آمادگی کی وجہ سے ہوتا ہے ، قوم تباہی کی خود ذمہ دار ہوتی ہے ، وہ بہت یقین سے کہتے ہیں کہ قوم اپنی تقدیر خود بناسکتی ہے ۔ ماسٹر قوم اس لئے ماسٹر ہوتی ہے کہ غلام آمادہ قوم اس کو ماسٹر مان لیتی ہے ۔ وہ یہ بات یہاں ختم نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اگر قوم غلامی میں گرفتار ہوسکتی ہے تو آزاد بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی قسمت کی کنجی اس کے ہاتھ میں ہے ۔ کسی قوم کے خیالات ، عادات، اقوال اور افعال ، جب بہتر ہونے لگتے ہیں تو اس کو برتری حاصل ہوتی ہے اور اس کی حکومت ہوسکتی ہے۔ جب مسدس ’’مدو جزر اسلام‘‘ منظر عام پر آیا تو جابجا چرچے ہونے لگے ۔ واعظ اپنے وعظ میں، مقرر اپنی تقریر میں اشعار بیان کرنے لگے۔ اسکولوں کے نصاب میں آگیا۔ حالی نے خود پرُامید لہجے میں کہا کہ میں اس قوم سے مخاطب ہوں جو بے راہ تو ہے مگر گم راہ نہیں ہے ۔ مسدس پڑھنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ حالی کی شاعری ایسی نہیں تھی جس نے صرف اس وقت مقبولیت حاصل کی ہو بلکہ یہ ایسا مضمون ہے جو ہر عہد میں جب جب قوم کو عمل اور جاگنے کی ضرورت پڑے گی ، یہ مسدس کام آئے گا، کیونکہ اس میں تشنگی، تڑپ اور درد (قوم کیلئے ) اور کچھ کر گزرنے کی تلقین ہے۔
تمہید میں مرض کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ مرض جو ذاتی نہیں ہے بلکہ ہر وہ کمی اور برائی ہے جو کسی قوم میں بتدریج داخل ہوتی ہے جس سے لاپروائی ، بروقت دور کرنے کی کوشش نہ کرنابرے انجام کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔ تمثیل پیش کی ہے ؎
کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ا یسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب اور علامت گر اُن کو بتائیں
تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں
یوں ہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہرگز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ

اس کے بعد تاریخی حقائق کے ساتھ عرب کی ابتر حالت کا ذکر کر کے ظہور اسلام، اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات اور تبلیغ اور اس کے مثبت اثرات کا ذکر کرتے ہیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا  غریبوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر، ایک اک کو بتایا
زمانے کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوئے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھاکر
بند میں وقت کی قدر و قیمت بتائی پھر (51) میں اخلاقی برتری (84) میں قرطبہ کی عظمت (88) میں علم کا عروج ۔
(106)سے حالی کا قلم افسردہ ہورہا ہے ۔ ملت کی لاپروائی اور زوال آمادگی کی بات شروع کی ہے ، کہا کہ حکومت نے آزادیاں دے رکھی ہیں لیکن فائدہ نہیں اٹھاتے۔ مذہبی آزادی ہے، شخصی آزادی ہے ، دوسری قوموں کا ذکر کرتے ہیں کہ شاید احساس جاگے۔ عنوان’’مدو جزر اسلام‘‘ کی رعایت سے قوم کو بیڑے اور جہاز سے تشبیہہ دی ہے۔
وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر
موج حائل ہے اور ہوا ناساز
یا تھپیڑے ہوا کے لے ڈوبے
یا گیا کشمکش میں ڈوب جہاز
حالی نے سمجھایا ہے کہ اتنی ترقی کے بعد تنزلی کی طرف قوم آرہی ہے۔ تمہارے ہاتھ تو وہ نسخۂ کیمیا لگ گیا تھا، جس سے ہر زنگ آلود چیز سونا بن سکتی تھی۔ ہمارے جہاز میں رخنہ آگیا ہے ، اس وجہ سے اس کے ڈوبنے کے امکانات ہوگئے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ہر شخص کو  باعمل ہونا چاہئے( اپنی بساط بھر) ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ ہم اسی وقت بچ سکتے ہیں، جب پوری کشتی بچائی جائے ۔ ایک دوسرے کی باہمی مدد خطرے کے وقت نجات کا باعث ہے ۔ اسی سمندر کے مدو جزر ، موسم اور ہواؤں کے رخ سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ حالی نے وہ ہندوستان دیکھا ہے جو عروج سے زوال کی طرف آرہا تھا ۔ اسی لئے اس نظم میں تشنگی ، درد، تڑپ ہے اور نتیجتاً کچھ کر گزرنے کی تلقین ہے ۔ دوسری قوم کی ترقی کا ذکر اور اس ذکر سے مسلمانوں میں احساس کمتری جگانے کیلئے لکھ کر پھر تسلی دیتے ہیں کہ ان پر بھی زوال آئے گا ۔ یہ بھی مٹیں گے۔
پورا مسدس پڑھنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کامیابیوں کی جتنے عنوان ہیں سب اللہ کے رسولؐ سے منسلک ہیں، جنہوں نے زندگی کے ہر پہلو تعلیم ، ترقی ، قانون، اخلاق ، سماج ، محنت ، صفائی وغیرہ اور سب سے زیادہ ذاتی کردار کا ایک معیار بتایا اور ان خوبیوں کی مالک ایک قوم بنائی۔

حالی نے آخری بند میں بڑے پتے کی بات بتائی ہے کہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے، سوائے اس ذات واحد کے ۔ لہذا یہ احساس ’’فنا‘‘ بڑا تسلی بخش احساس ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے زندگی کو غنیمت سمجھنا، زیادہ سے زیادہ ترقی کرنا، محنت کرنا اور بے غرضی کے احساس کو تقویت ملتی ہے ۔ یہ سب کہہ کر حالی پھر اسی منبع رحمت کی طرف رجوع ہوکر کہتے ہیں۔ فریاد کرتے ہیں ۔
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
فریاد ہے اے کشتیٔ امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
حالی نے اس راز کو پالیا تھا کہ قوم کی پست حالت کے وقت انسان کے ذہن میں دو خیال گزرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے  ۔ دوسرے کچھ کر گزرنا چاہئے ۔ پہلے خیال سے کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرے سے عجائبات ہوجاتے ہیں۔ قوم کے وہ لوگ جو زمانے کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے واقف ہیں، ان کو جو بن پڑے کر گزرنا چاہئے ۔ لہذا سر سید کے اصرار پر نظم کی پرانی ڈگر سے ہٹ کو قوم کیلئے مسدس ’’مدو جزراسلام‘‘ لکھی ۔
نوٹ : گزارش ہے کہ پوری نظم خاص طور سے نوجوان طبقہ ضرور پڑھے