حادیہ کیس۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے سوال پوچھا‘ کیا والد 24سال کی بیٹی کی ذاتی زندگی پر کنٹرول کرسکتے ہیں؟

نئی دہلی۔سپریم کورٹ نے کیرلا کے ’’ لوجہاد‘‘ کیس کی سنوائی کے دوران منگل کے روز کہاکہ یہ والد اپنی بیٹی کی تحویل کے لئے زور نہیں دے سکتا۔دی ہندو کی خبر کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپل مشرا نے کہاکہ ’’ ایک باپ کی اس کی چوبیس سال کی بیٹی کے اوپر کنٹرول نہیں ہوسکتا۔

کیوں نہ لڑکی کو کسی گارڈین یا پھر تنظیم کو روانہ کردیاجائے‘‘۔ اعلی عدالت نے کہاکہ یہاں پر اس بات کی جانچ بے حد ضروری ہے کہ کیرالا ہائی کورٹ نے جس شادی کو مسلم شخص کے ساتھ ہندو عورت کی شادی قراردیتے ہوئے دائرے اختیار کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مسترد کردیاتھا کیا وہ شادی سے قبل اسلام قبول کیاتھا۔

چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیر قیادت بنچ نے کہاکہ 9اکٹوبر کو کیرالا کے شیفان جہاں تازہ درخواست پر سنوائی کریگا جو چاہتے ہیں کہ این ائی اے کو سابق میں دئے گئے احکامات جس میں شادی کو مبینہ ’لوجہاد‘ کا حقیقی واقعہ ہے یا نہیں کی جانچ کو کہاگیاتھا اس کا اعادہ کریں۔سینئر ایڈوکیٹ دوشنت دیوے جہاں کی طرف سے عدات میں حاضر ہوئے تھے انہو ں نے بحث کرتے ہوئے کہاکہ ہمہ مذہبی معاشرے میں عدالت این ائی اے کو اس طرح کی تحقیقات کا حکم نہیں دے سکتااور انہوں نے عدالت پر زوردیا کہ وہ مذکورہ احکامات کا اعادہ کرنے کے لئے دائرکردہ درخواست کی فوری سنوائی کریں۔

بنچ میں موجود جسٹس اے ایم خانوالکر اور ڈی وائی چندراچوڑ نے کہاکہ ’’ پیٹرن یا کوئی پیٹرن نہیں ‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کو دستور کے مطابق ارٹیکل226کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے شادی کو مسترد کرنے کا حق حاصل یا نہیں‘‘۔ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ( اے ایس جی) توشار مہتا دوسرے اے ایس جی مہیندر سنگھ کے بجائے عدالت میں پیش ہوئے تھے کیونکہ مہیندر سنگھ ذاتی کام کے سلسلے میں شہر کے باہر ہیں۔

ہندو لڑکی سے مسلم لڑکے کی شادی کے متعلق این ائی اے کو جانچ کے لئے دئے گئے احکامات کو اعادہ کرنے کے لئے جہاں ستمبر20کو معزز عدالت سے رجوع ہوئے تھے۔

کیرالا ہائی کورٹ نے مذکورہ شادی کو ’لوجہاد‘ قراردیتے ہوئے مسترد کردیاتھا۔چار ماہ قبل شادی کو مسترد کردینے کے بعد کیرالا ہائی کورٹ نے حادیہ کو ان کے والدین کے ایم اشوکن اور پورنیما کے حوالے کردیاتھا۔ مذکورہ اعلی عدالت نے 16اگست کو ہدایت دی کہ اس شادی کے متعلق این ائی اے معزز عدالت کے جج جسٹس آر وی رویندرن کی قیادت میں تحقیقات کرے۔جہاں نے اپنے درخواست میں یہ دعوی کیاہے کہ کیرالا انسانی حقوق کمیشن کو مذکورہ عورت کو اس کے والد کے گھر میں تکلیفیں پہچانے کے متعدد شکایت وصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے اس بات کا بھی دعوی کیا کہ ہے کہ حادیہ نے صاف طور پر کہادیا ہے کہ اس نے ہائی کورٹ کے احکامات جومئی 24کو ائے تھے اس کے بعد اسلام قبول کیاہے جس کے لئے وہ پوری طرح آزاد ہے ‘ او رحادیہ کو مرضی کے خلاف محروس بناکر اس کے حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

جہاں جس نے ایک ہندو لڑکی سے ڈسمبر 2016میں شادی کی تھی اس نے کیرالا ہائی کورٹ کی جانب سے شادی کو مسترد کردئے جانے کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت کاانصاف کے لئے دروازہ کھٹکھٹایا تھا ‘ انہو ں نے کہاکہ یہ ملک میں عورت کی آزادی کی توہین ہے۔

شادی کے بعد ہندو عورت نے مذہب اسلام قبول کرلیا۔اس پر الز ام ہے کہ عورت کو اسلامک اسٹیٹ کے سیریا میں مشن کے لئے تقرر عمل میں لایاگیا ہے اور جہاں نے اس عورت کا محاصرہ کیا۔اشوکن کے ایم عورت کے والد نے الزام عائد کیا کہ ’’ تیل سے مالا مال نظم کا طریقہ کار ہے‘‘ جو اسلامی شدت پسندی میں تبدیل کررہا ہے۔