جیل سے رہا قیدی ’ مہا بھارت‘ کا اردو داستاں گو ’، اسٹیج تیار

نئی دہلی:۔ اونچی دیواروں اور خار دار تاروں سے گھرے تہاڑ جیل میں تین قیدی ایسے گذرے ہیں ،جنہیں جیل کے ضابطہ کے مطابق اعلی تعلیم یافتہ سمجھا جا تا ہے۔ماؤ نوازلیڈر کو بڈ گھاگنڈی ، پارلیمنٹ پر حملہ کے مبینہ مجرم افضل گرو کو نو فروری ۲۰۱۳ء کو پھانسی دی گئی تھی۔

اور عصمت دری سزا سے بری ہوئے پیپلی لائیو کے شریک ڈائرکٹر محمود فاروقی جیل میں قید و بند کے دوران فاوقی نے وقت گزاری اور ذہنی تسکین کے لئے کتب بینی کا سہارا لیا۔تہاڑ کی لائبریری میں فاروقی کو مختلف کتانوں کے مطالعہ کا موقع ملا۔اسی دوران گیتا سمیت مہا بھارت کی کہا نیاں پڑھیں اور اپنے تخلیقی ذہن کااستعمال کرتے ہبوئے مہا بھارت کی اردو داستاں تیار کردی۔محمود فاروقی کا شمار نئی نسل کے ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنہیں داستاں گوئی کی دھن سوار ہے

۔فاروقی اس سے قبل کئی داستاں ضبط تحریر اور سنا چکے ہیں۔ اس بار انہوں نے جو داستاں تیار کی ہے اس کا نام ’داستاں کرن ازمہا بھارت ‘۔اس داستاں کی خاص بات یہ ہے کہ اسے اردو میں تیار کیا گیا ہے۔اور اسے اردو میں بھی پیش کیا جائے گا۔اس تعلق سے فاروقی نے بتا یا کہ ’ ٹیم داستاں گوئی کی نئی پیش کش کے طور پر ہم اردو میں ایک ایسی داستاں پیش کرنے جا رہے ہیں جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس خاص داستاں میں ان بین بر اعظم اساطیر کا عکس نظر آئے گا ‘ جو اب ہمارے عہد میں نادر ہو چکے ہیں۔اس داستاں میں اصلی سنسکرت مہا بھار تھا۔

مغل بادشا ہ اکبر کی ہدایت پر فیضی اور عبد الرحیم خان کی نگرانی میں فارسی میں ترجمہ شدہ ’رمزنامہ‘ ٹوٹارام شیام کے ذریعے دو سو سال قبل اردو میں کئے گئے ترجمہ اور پاکستانی مصنف کامران اسلم کے اردو ترجمہ کی جھلک دد؂کھے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ داستاں کرن ازمہا بھارت کی تایری میں مشہور شاعر انور جلال پوری کے ذریعہ گیتا کے اردو ترجمہ کی مدد لی گئی ہے۔اس علاوہ ہندی شاعر رام دھری سنگھ کی تخلیق مراٹھی قلم کار شیواجی ساونت کے ناول مری تونجے،ٹیگور کی نظموں اور اراوتی کاروے کے مہا بھارت پر مضامین سے خوشہ چینی کی گئی۔فاروقی کے مطابق یہ داستاں گیتا اور قرآن میں مساوی تصورات کے عکاسی کرے گی۔

]ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’ داستاں کرن از مہا بھارت کی زبان اردو ہے۔تاہم سنسکرت ہندی ، فارسی اور عربی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔فاروقی نے داستاں کے انوکھے اور نادر اہو نے کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ایسا شائد پہلی بار ہوا ہے۔جب ایک شو میں ایک داستاں کواتنی زبانوں کا استعمال کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید بتا یا کہ’’ میں جب جیل میں تھا تب میں نے جیل کی لائبریری میں مہا بھارت کے اصل نسخہ تک رسائی کر کے اس داستاں کو تیار کیا۔جیل سے رہائی کے بعد تزئین و تر تیب کے ساتھ اسے پیش کرنے جا رہا ہوں ۔آئندہ ماہ تین اور عار فر وری کو انڈیا ہبی ٹیٹ سنٹر کے آڈیٹوریم میں یہ داستاں پیش کی جا ئے گی۔

واضح ہو کے داستاں گوئی ، کہانی بیان کرنے کا ایک مخصوص انداز ہے جس میں رزمیہ داستانوں کو ڈرامو ں کے انداز میں ہیش کیا جاتا ہے۔کہانی سنانے والے کے پاس الفاظکا سمندر ہو تا ہے جس سے وہ کہا نی کا مکمل منظر اور نقشہ کھینچتا ہے اور کہانی کھچ اس طرح بیان کرتا ہیکہ اس میں سسپنس ہوتا ہے،موسیقی ہوتی ہے اور ہر لمحہ انتظار کی کیفیت ہوتی ہے کہ آگے کیا ہو نے والا ہے۔داستاں گوئی کی روایت قدیم ہندوستان میں بے حد مقبو ل تھی۔لیکن تقریبا ایک صدی پہلے ہندوستان میں داستاں کہنے اور پڑھنے والوں کی آوازیں مدھم ہونے لگیں تھیں ۔مگر گزشتہ کچھ سالوں سے یہ روایت دوبارہ زندہ ہو رہی ہے اور بتدریج مقبول بھی ہورہی ہے۔