جیت اپنی جگہ ہار اپنی جگہ

باپ بیٹے متحد…چچا کنارہ پر
نوٹ بندی ۔ مہلت ختم ۔ پیسہ ہضم

آخر کار 24 گھنٹے کے اندر اترپردیش کے سماج وادی گھرانے کا بحران ختم ہوگیا اور چیف منسٹر اکھلیش یادو کو ریاست کا مقبول ترین اور ناقابل تسخیر قائد تسلیم کرلیا گیا۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران باپ بیٹے اور چچا کے درمیان تیسری مرتبہ جنگ بندی بھی ہے لیکن انتخابات سے عین قبل سنگین بحران سے پارٹی میں پھوٹ کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سیکولر ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد یادو اور اترپردیش کے بے باک وزیرمحمد اعظم خاں نے اہم رول ادا کیا اور ملائم سنگھ کو اس بات کیلئے قائل کردیا کہ صرف اکھلیش یادو ہی اترپردیش میں پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اکھلیش یادو اور رام گوپال یادو کی پارٹی سے برطرفی کو 24 گھنٹے میں واپس لینے سے بی جے پی کو سخت مایوسی ہوئی ہے جو بعض اندرونی ایجنٹس کے ذریعہ پھوٹ پیدا کرنے کی تیاری کرچکی تھی۔ اکھلیش یادو کی مقبولیت اور عوامی نمائندوں میں ان کی پسندیدگی کے بارے میں خود والد ملائم سنگھ کو غلط اندازے تھے، آج انہیں یہ احساس ہوگیا کہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت بھی ختم ہوچکی ہے اور اب اکھلیش یادو ہی سیکولر ووٹ کو حاصل کرنے کے اہل ہیں ۔ اکھلیش کے حق میں 200 سے زائد ارکان اسمبلی کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت کھڑی نظر آئی ۔ تمام ضلع صدور نے اکھلیش کی تائید کی ۔ اس کے باوجود انہوں نے سیاست بصیرت اور والد کی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والد سے بغاوت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ملائم سنگھ یادو کا اپنے بیٹے کی گھر واپسی کا فیصلہ اگرچہ اکھلیش یادو کی کامیابی ہے لیکن انہوں نے اکثریت کے باوجود قیادت کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اچھی مثال قائم کی ہے۔اترپردیش کے عوام چاہیں گے کہ یہ اتحاد عارضی نوعیت کا نہ ہو بلکہ پارٹی پوری طاقت کے ساتھ فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کریں۔موجودہ بحران کی جس انداز میں یکسوئی ہوئی اور جس طرح اکھلیش یادو نمبر ون مقبول قائد بن کر ابھرے ہیں، اس سے کارکنوں کے حوصلے اور بھی بلند ہوں گے اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پارٹی کا مظاہرہ بھی گزشتہ اسمبلی انتخابات سے بہتر رہے گا۔بی جے پی کے خلاف بے تکان جدوجہد کرنے والے لالو پرسادیادو اور اعظم خاں نے اترپردیش کو آخر کار بچالیا ، ورنہ بی جے پی انتخابی مہم کے بغیربھی سیکولر ووٹ کی تقسیم پر اقتدار کا خواب دیکھ رہی تھی۔

بادشاہت ہو کہ جمہوریت اقتدار کے لئے باپ بیٹے میں ٹکراؤ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں کئی سلاطین کے دور ایسے گزرے جس میں سلطنت اور حکمرانی کیلئے بغاوت اور اپنوں کو قید کرنے کے واقعات موجود ہیں۔ آزادی کے بعد بھی سیاسی جماعتوں میں اقتدار کیلئے رسہ کشی اور بغاوت کی روایت برقرار ہے۔ ظاہر ہے کہ اقتدار اور کرسی چیز ہی ایسی ہے جو انسان کو خونی رشتوں سے بھی اندھا کردیتی ہے۔ انسان عمر کے کسی حصہ میں کیوں نہ ہو، اقتدار کی ہوس اسے کسی بھی حد تک لے جا سکتی ہے۔ عوام کی خدمت اور ملک کی بھلائی کی پرواہ نہیں ہوتی اور بس ایک جنون سوار ہوتا ہے کہ کسی طرح اقتدار اپنے کنٹرول میں رہے۔ بہت کم سیاستداں ایسے بھی رہے جنہوں نے نئی نسل کیلئے راستہ ہموار کرتے ہوئے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اسمبلی انتخابات سے عین قبل ملائم سنگھ یادو اور ان کے بھائی شیوپال یادو نے جس سیاسی ناتجربہ کاری اور دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا اور وہ مذاق کا موضوع بن گئے۔ اکھلیش یادو نے نئی اسکیمات اور ترقیاتی کاموں کے ذریعہ عوام کا دل جیت لیا تھا ، ایسے وقت میں انہیں مضبوط کرنے کے بجائے بھائی شیوپال کی باتوں اور بہکاوے میں آکر ملائم سنگھ اپنے بیٹے کے سیاسی مستقبل کو نقصان پہنچانے کے در پہ تھے۔ سیاسی پارٹیوں پر جب خاندانی اجارہ داری کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے تو ہوس اقتدار میں کرسی کے حریص کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اترپردیش اور 4 دیگر ریاستوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان کسی بھی وقت ممکن ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی اترپردیش میں اقتدار کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ انتخابی مہم کے طور پر ریاست میں کئی پریورتن ریالیاں کی گئیں۔ بی جے پی 2014 ء لوک سبھا کے نتائج کو دہراتے ہوئے یو پی پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ اترپردیش کی 80 میں 72 نشستوں پر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھنے نریندر مودی اور امیت شاہ اترپردیش پر توجہ مرکوز کرچکے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملائم سنگھ ایک سرپرست کی طرح دوبارہ پارٹی کی کامیابی کیلئے رہنمائی کرتے اور نوجوان چیف منسٹر کا حوصلہ بڑھاتے۔ برخلاف  اس کے ملائم سنگھ خود پارٹی کے دشمن اور بی جے پی کے آلہ کار دکھائی دے رہے ہیں۔ پارٹی میں اختلافات اور انتشار کے ذریعہ آخر وہ کس کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ امیدواروں کے انتخاب میں اکھلیش حامیوں کو ٹکٹ سے محروم رکھنا اور فرزند کو چیف منسٹر کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے سے انکار نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ عمر کے اس حصہ میں ذہنی توازن بگڑنے اور سٹھیا جانے کا کھلا ثبوت ہے ۔ اس طرح کے افراد کے لئے علحدہ سیاسی اولڈ ایج ہوم کی ضرورت ہے۔ چچا شیو پال یادو اس کھیل میں ویلن کے طور پر ابھرے ہیں ، جنہیں بعض مبصرین مہابھارت کے ’’شکونی ‘‘قرار دے رہے ہیں۔ ملائم سنگھ شاید بھول گئے کہ سابق میں بی جے پی سے قربت کے ریکارڈ کے باوجود عوام نے سیکولرازم کے تحفظ کیلئے سماج وادی پارٹی کو اقتدار حوالہ کیا تھا ۔ ایک طرف بیٹے اور پارٹی کے مستقبل کو داؤ پر لگادیا گیا تو دوسری طرف عوام کے جذبات اور احساسات کی کوئی فکر نہیں ۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ملک اور خاص طور پر اترپردیش میں رائے دہندوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے اور اکھلیش یادو نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں  ملائم سنگھ کا نرم رویہ کئی شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ ملائم سنگھ یوں بھی بی جے پی سے دوستی کا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔ بی جے پی اتحاد کے ساتھ حکومت چلانے سے بھی وہ باز نہیں آئے۔ خود کو مولانا ملائم، مسلمانوں کے سچے ہمدرد اور بابری مسجد کے محافظ کے طور پر پیش کرنے والے ملائم سنگھ نے بابری مسجد شہادت کے اصل خاطی کلیان سنگھ کو گلے لگایا تھا اور اپنی پارٹی میں شامل کیا تھا ۔ مسلمان آج تک بابری مسجد کی شہادت ، اس میں کلیان سنگھ کے رول اور ایسے شخص کو ملائم سنگھ کے گلے لگانے کے منظر کو آج تک بھولے نہیں ہیں۔ جس وقت ملائم سنگھ نے کلیان سنگھ کو گلے لگایا ، اس وقت بابری مسجد اور مسلمان انہیں یاد نہیں رہے ۔ ملائم سنگھ کو بہار میں نتیش کمار سے سبق لینا چاہئے ۔ جنہوں نے مضبوط موقف کے باوجود لالو پرساد یادو اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا اور بی جے پی کا صفایا کیا ۔ لالو پرساد یادو پر مختلف مقدمات کے باوجود بی جے پی کو اقتدار اور سیکولر ووٹ کی تقسیم کو روکنے وسیع تر اتحاد کیا تھا۔

ملائم سنگھ یادو کے سیکولرازم پر اس وقت بھی شبہات پیدا ہوئے تھے جب انہوں نے چیف منسٹر کی حیثیت سے بابری مسجد کے قریب جمع ہونے والے کارسیکوں پر کی گئی فائرنگ پر ندامت کا اظہار کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملائم سنگھ کے اطراف بی جے پی کے ایجنٹس رشتہ داروں کی شکل میں جمع ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں نوٹ بندی کے 50 دن مکمل ہوگئے اور نریندر مودی نے عوام سے جو مہلت مانگی تھی ، وہ بھی ختم ہوگئی لیکن حالات جوں کے توں برقرار ہیں ۔ عوام کو کالا دھن کے خاتمہ اور اچھے دن کا انتظار ہے۔ گزشتہ 50 دن میں حکومت نے اگرچہ کئی دعوے کئے لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ بینکوں میں عوام نے جو رقومات جمع کی ہیں، ان میں کالا دھن کتنا ہے ۔ کالا دھن ختم کرنے کے نام پر جس طرح عوام کو کیاش لیس کردیا گیا ، اس پر پردہ پوشی کیلئے مودی نے کیاش لیس لین دین کی اسکیم متعارف کی ہے ۔ جب رقم ہی نہ ہو تو پھر مشین سے ادائیگی کس طرح ہوپائے گی۔ حکومت 50 دن کے بعد سدھار کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر کی معیشت پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہیں ، بازار میں مال تو موجود ہیں لیکن خریدار نہیں۔ ریاستوں کے بجٹ پر بھی نوٹ بندی نے منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ حکومت نے ریزرو بینک کے اختیارات کو استعمال کیا، جس کے نتیجہ میں 50 دن میں تقریباً 60 ایسے فیصلے کئے گئے جنہیں بعد میں واپس لینا پڑا ، اس طرح مودی سرکار نوٹ بندی کے سلسلہ میں ’’یو ٹرن‘‘ سرکار ثابت ہوئی۔ عام آدمی کی مشکلات دورکرنے کے بجائے مودی مزید نئی پابندیوںاور دیگر شعبہ جات کو متاثر کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ نئے سال کے موقع پر عوام کو خوشیوں کے بجائے مزید مصیبت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جب کبھی نریندر مودی ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں تو عوام کے دلوں کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے پتہ  نہیں کونسا نیا اعلان کر بیٹھیں۔ ابھی تو نوٹ بندی ہے، مزید کونسی بندیاں نافذ کی جائیں گی ۔ کسی مزاح نگار نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا  کہ مودی کے ٹی وی اسکرین پر آتے ہی لوگ اپنی بی پی اور شوگر کی دوائیں ساتھ رکھ رہے ہیں، پتہ نہیں کس لمحہ ان کی ضرورت پڑ جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 50 دن تکمیل اور نئے سال کے آغاز پر مودی ملک کے عوام کو کیا تحفہ دیں گے۔ نوٹ بندی کے مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں نے بھی عوام کو مایوس کیا ہے۔ خاص طور پر کمیونسٹ جماعتیں جو غریبوں اور مزدوروں کے نام پر سیاست کرتی ہے، وہ عوام کیلئے آواز اٹھانے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ صرف کانگریس اور ممتا بنرجی نے جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔ اترپردیش کے حالات پر نواز دیوبندی کا یہ شعر صادق آتا ہے  ؎
مختصر یہ بتا سر بکف کون تھا
جیت اپنی جگہ ہار اپنی جگہ