جو چپ رہے کی زبان خنجر۔ لہو پکارے گا آستین کا۔ دی کاروان کا انکشاف نے انصاف کے مندر میں ایستادہ یقین واعتماد کے سبھی بتوں کو پل بھر میں مسمار کردیا ہے

ہندوستان میں مسلمانوں کا ملک کے مختلف اداروں پر جب بھی اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے تو انہیں ایک ادارے کی شکل میں امید کی کرن نظر آنے لگتی ہے۔ بلاشبہ ادارہ عدلیہ ہے۔ہم میں سے اکثر افراد اس یقین او راعتماد کا اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ عدالیہ بہت ساری خامیوں او رنچلی سطح پر بدعنوانیوں کے باوجود انصاف کی لوجلائے ہوئے ہے۔ لیکن سہراب الدین فرضی انکاونٹر کی سماعت کررہے سی بی ائی کے خصوصی جج براج گوپال ہرشن لویا کی پراسراراور انتہائی مشکوک حالت میں ہوئی موت کے تعلق سے ’ دی کارواں‘ نے تین چار روز قبل جب سے رپورٹ شائع کی ہے اس نے ہر اس شخص کو ناقابل یقین حد تک ہلا کررکھ دیا ہے جس کے دل میں ذراسی بھی ہندوتان کے عدالتی نظام کے لئے توقیر ہے۔

عدلیہ پر بہت سے افراد کااعتماد امتحان کی گھڑی سے گذر رہا ہے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے کے اقتدار میں آنے بعد ملک کے متعدد طبقات کے لئے جس خوف او ردہشت کی بات کی جاتی تھی ‘ اس میں عدلیہ کوشامل نہیں کیاجاتاتھا۔عام تاثر اب بھی یہی ہے کہ کسی بھی حکومت کے عزائم چاہئے جس قدر خطرناک ہوں لیکن عدلیہ کے لئے اس میں ڈر نے جیسی کوبات نہیں ہے۔لیکن ’ دی کارواں‘ کی رپورٹ صرف سی بی ائی کے خصوصی جج برج گوپال ہرکشن لویا کی انتہائی مشکوک موت کے اردگرد کے واقعات پر روشنی ڈالتی بلکہ اس خطرناک منصوبہ بندی کو بھی بے نقاب کرتی ہے جس کے ذریعہ ملک کے اندر انصاف کے نظام کو سبوتاج کرنے کی کوشش کی جارہے اورطاقتورافراد مختلف طریقوں سے اپنے حق میں فیصلے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں عوام تک خبر اس کے لئے نہیں پہنچ رہی ہے کیونکہ ’ دی کارواں‘ کی رپورٹ کو چند ویب پورٹل کے علاوہ اسٹریم میڈیا میں شائع نہیں کیاجارہا ہے۔

این ڈی ٹی وی پرائم ٹائم میں روش کمار نے جج لویا کی موت کے اتردگر مشکوک واقعات پر خوف کے اظہار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے لیکن یہ واقعہ اس قدر سنگین ہے کہ اس پر خاموشی اختیار کرنے کا مطلب اس ملک کے کروڑں افراد کے لئے طاقتور لوگوں کے پسند کی انصاف پر قناعت کرنا ہے۔کانگریس گجرات انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے او رریاست کے لئے تیارکردہ سافٹ ہندوتوا پیاکج کی وجہہ سے وہ زبان کھولنے کو تیار نہیں ہے۔لیکن اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ جو چپ رہے گی زبان خنجر ‘ لہو پکارے گا آستیں کا ‘ کے مصداق یہ خوفناک اور دلخراش واقعہ دنیاکی نگاہوں کے سامنے کھل کر ضرور ائے گا۔ جج برج گوپال ہرکشن لویا کے اہل خانہ تین سال کے بعد زبان کھولنے کو تیار ہوئے ‘ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خصوصی جج کی مشکوک موت کے بعد جب ان کے اہل خانہ اس حد تک خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ تین سال تک اپنی زبان نہیں کھولتے ‘ توان عام لوگوں کا کیاحشر ہوتا ہوگا جو روزانہ ظلم اور طاقتور لوگوں کے ہاتھ مظالم او رزیادتیوں کے بعد انصاف کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔

جن لوگوں کاسہرا ب الدین فرضی انکاونٹر کے پس منظر کا علم نہیں ہے ‘ ان کے لئے اطلاع ہے کہ سہراب الدین فرضی انکاونٹر مقدمہ میں بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کلیدی ملزم تھے۔ صرف یہی نہیں گجرات کے متعدد ائی پی ایس افسران اس فرضی انکاونٹر کی وجہہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ لیکن اس کیس کی سماعت کرنے والے سی بی ائی کی خصوصی عدالت کے جج برج گوپال کرکشن لویا کی یکم ڈسمبر2014صبح ناگپور میں انتہائی مشکوک حالت میں موت ہوگئی تھی ۔ دی کارواں کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاہے کہ ممبئی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس موہت شاہ نے سی بی ائی جج لویا کو سہراب الدین فرضی انکاونٹر کے کلیدی ملزم بی جے پی کے قومی صدرامیت شاہ کو کلین چٹ دینے کے عوض ایک سو کروڑ روپئے اور ممبئی میں ایک مکان کی پیش کش کی تھی۔جج برج گوپال ہرکشن لویا کا فی اصرار کے بعد اپنے ساتھی جج کے بیٹی کی شادی میں ناگپور گئے تھے لیکن اسی رات انتہائی پراصرار او رمشکوحالات میں ان کی موت کسی تھرلر فلم کے واقعہ سے کم نہیں لگتی ہے۔

متوفی جج کی لاش کو آر ای سایس کے کارکن ایشوریہ بیہاٹی نے ممبئی کے بجائے ان کے آبائے گاؤں لا کر چلاگیا۔ جب کسی پروٹوکول کے بغیر جج کی نعش لائی گئی تو ان کی گردن ‘ سراور پشت پر زخم کے نشان تھے بلکہ ان کے شرٹ پر خون کے دھبے بھی موجود تھے۔ حالانکہ کے جج کے اہل خانہ کو بتایاگیا تھا کہ ان کی موت حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔تین روز کے بعد جج کاموبائل بھی فسطائی تنظیم آر ایس ایس کے اسی کارکن نے تمام ریکارڈ ضائع کرنے کے بعد گھر والو ں کے حوالے کردیا۔ حرکت قبل بند ہونے پر عام طور پر پوسٹ مارٹم نہیں کیاجاتا ۔ لیکن اہل خانہ کی اجازت کے بغیر نہ صرف عجلت میں ان کا پوسٹ مارٹم کیاگیا بلکہ ان کی لاش ایک ایسی جگہ بھجوائی گئی جہاں میڈیا کی رسائی نہ ہو۔ جج برج گوپال ہر کشن لویا کی موت کے اردگرد ایک بھی ایسا واقعہ نہیں جس پر شک نہیں کیاجائے ۔ یہ صرف اتفاق نہیں ہے کہ جج لویا کی پراصرار مو ت کے بعد ان کی جگہ لینے والے جج ایم بی گوساوی نے محض دو دن کے اندر امیت شاہ کے اوپر سے الزامات ہٹادئے اور انہیں30ڈسمبر2017کو کلین چٹ بھی دی ہے ۔

سی بی ائی نے ابھی تک فیصلے کو کسی اعلی عدالت میں چیلنج نہیں کیاہے۔ یقین ماننے کہ اگر جج برج گوپال کشن لویاکی موت کے اردگرد کے واقعات کے تعلق سے رپورٹ پڑھیں کے تو مایوسی اور نفرت کے اظہار کے بغیرنہیں رہ سکیں گے کہ کس طرح طاقتور لوگ اس ملک میں انصاف اور زندگیوں سے کھیل سکتے ہیں۔ اس انکشاف پر چند باہمت صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے علاوہ کوئی بھی زبان کھولنے کو تیار نہیں ہے۔ یہاں تک سپریم کورٹ سے بھی کوئی آواز ابھی تک نہیں ائی ہے۔ لیکن یہ خاموشی اچھی علامت تو ہرگز نہیں ہے۔جج برج گوپال ہرکشن لویا کی پراسرار موت سے متعلق رپورٹ ہر شخص کو پرھنی چاہئے‘ تاکہ اسے اندازہ ہوجائے کے اس ملک کے اندر تبدیلی ہوچکے سیاسی ماحول میں صرف ایک مظلوم نہیں بلکہ ایک منصف کو بھی ایماندر رہنے پر کسی طرح کے جان جوکھم سے گذر نا پڑتا ہے۔

ایک ایسے وت جب مرکز میں مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت عالمی انصاف عدالت میں سپریم کورٹ کے جسٹس دلو بھنڈاری کے انتخاب پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے اس سے یہ سوال کیاجانا ضروری ہے کہ جج برج گوپال ہرکشن لویا کو انصاف کون دے گا ؟ اگر کسی عالمی عدالت میں ملک کے کسی جج کا انتخاب مودی حکومت کی بہت بڑی حصولیابی ہے تو ملک کے اندر ایماندار او رفرض شناس جج کی پراسرار او رانتہائی مشکوک حالات میں موت اس حکومت کی بڑی ناکامی کیوں نہیں ہے؟اس کی جانچ کیو ں نہیں ہوئی یا اس کے انشاف کے بعد حکومت یا وزیر قانون کی جانب سے کوئی جواب کیو ں نہیں آرہا ہے۔ امیت شاہ او ران کے بیٹے اپنے خلاف ریورٹ شائع کرنے والوں کو ایک سو کروڑ کی ہتک عزت کا نوسٹ دیتے ہیں ‘ وہ اس بار’ دی کارواں‘ کے خلاف ہتک عزت کونوٹس کیوں نہیں دے رہے ہیں۔

یقینی طور پر یہ انکشاف مسلمانوں کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ گجرات فسادت سے لے کر متعدد بم دھماکوں او رفرضی انکاونٹرز میں مسلمانوں یہ لگاتھاکہ انصاف کی ان کی جدوجہد میں حکومت چاہئے ان کے سامنے جس طرح کی بھی رکاوٹیں کھڑی کرلے لیکن عدلیہ سے انہیں انصاف مل کر رہے گا‘ لیکن اس انکشاف نے انصاف کے مندر میں ایستادہ یقین واعتماد کے سبھی بتوں کو پل بھر میں مسمار کردیا ہے ۔ اگر اس ملک میں انصاف کو بھی الیکشن کی طرح مینجمنٹ میں تبدیل کردیا جاتا تو ملک کے مسلمانوں سمیتان کروڑوں افراد کے لئے یہ نیت علامت نہیں ہے جو کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔یقینی طور پر کانگریس کو اس پر اپنی زبان کھولنی چاہئے۔جس راہل گاندھی نے امیت شاہ کے بیٹے جئے شاء کی راتو ں رات ترقی بارے میں’ دی وائیر‘ کی رپورٹ پر درجن بھر ٹوئٹس کئے اور اس سے زیادہ تقریریں کیں کیاانہیں اس مسئلہ پر بھی زبان کھولنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر اپوزیشن اس مسئلہ پر زبان نہیں کھولے گی تو کوئی صحافی تفتیشی صحافت کا خطرہ کیوں مول لے گا۔