جو رحم کرے گا ، اُس پر رحم کیا جائے گا

قاری محمد مبشر احمد قادری

اسلام کی تعلیم، سراسر رحمت و شفقت اور ہمدردی و موانست پر مبنی ہے۔ مخلوق خدا کے ساتھ رحمدلی سے پیش آنا، قرابت داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ایثار نفس سے کام لینا صلہ رحمی ہے، جو ایک بہترین صفت کہلاتی ہے اور اللہ رب العزت کو بے حد پسند ہے۔ برخلاف اس کے کہ اگر کوئی شخص بوقت ضرورت لوگوں پر رحم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندہ سے ناراض ہوتا ہے اور اس پر رحم نہیں فرماتا۔ چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا، جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ طبرانی کی حدیث میں یوں بیان کیا گیا کہ ’’تم میں سے جو دوسروں پر رحم نہ کرتا ہو، اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔ انسان کو خلیفۃ اللہ فی الارض بننے کا شرف عطا کیا گیا، لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے، کیونکہ اس میں خدا کی خوشنودی مضمر ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رحمت و شفقت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود ہے، یہ درست نہیں ہے، بلکہ ہر جاندار اور حساس مخلوق تک اسے وسعت دی گئی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا ہے، آپ کی تعلیمات میں انسان تو انسان ہیں، جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ایک مرتبہ ایک لڑکا مرغی کو باندھ کر اسے تیر کا نشانہ بنا رہا تھا، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو اس مرغی کو کھول دیا اور اس لڑکے کو لے کر اس کے ماں باپ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ ’’جانور کو ایذا دینا منع ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ملعون قرار دیا ہے‘‘۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس کو سخت پیاس لگی۔ اتفاق سے اسے ایک کنواں مل گیا، اس نے کنواں کے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور جب وہ واپس جا رہا تھا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے اپنی زبان باہر نکال کر کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس شخص کو اپنی پیاس کی شدت یاد آئی، فوراً اپنے چمڑے کے موزے کو پانی سے بھرا اور کتے کو پانی پلایا۔ بے نیاز مولا کو اس بندہ کی یہ ادا پسند آئی اور اس نے اس کے سارے گناہ بخش دیئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جب یہ واقعہ سنا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ’’یارسول اللہ! کیا جانوروں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر جاندار کے ساتھ بہتر سلوک کرنا موجب ثواب ہے‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک عورت محض اس لئے عذابِ جہنم میں مبتلا کی گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ دیا اور اس کو کھانا پانی کچھ نہ دیا، یہاں تک کہ وہ مر گئی‘‘۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ سفر کے دوران کسی جگہ قیام فرمایا اور کسی ضرورت کے تحت کچھ دُور تشریف لے گئے۔ جب واپس ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص نے اپنا چولھا ایسی جگہ جلا رکھا ہے، جہاں زمین پر چیونٹیوں کا سوراخ تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’فوراً آگ بجھاؤ، اس لئے کہ اس سے چیونٹیوں کو تکلیف ہو رہی ہے، جب کہ مخلوق کو تکلیف دینا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے‘‘۔
ابوداؤد شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بھوکے اونٹ کو دیکھا تو سخت ناراض ہوئے۔ اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ’’ان بے زبان جانوروں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، ان پر سواری کرو تو ان کو اچھی حالت میں رکھ کر سوار ہوؤ اور اگر انھیں کھاؤ تو اچھی حالت میں رکھ کر کھاؤ‘‘۔ آپﷺ نے جانوروں کے منہ پر مارنے والوں اور ان پر داغ دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ہے، اس لئے کہ اس طریقۂ عمل سے جانور بے فائدہ زخمی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرو کہ اس نے تمھیں کھانے کے لئے کیا کیا نعمتیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو کہ میں اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوں، اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قلبی محبت کا ہونا ہر مؤمن کی صفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس بندے میں ہوں گی، اس کو ایمان کی حلاوت ملے گی، ان میں سے ایک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہان سے زیادہ اس کو محبوب ہو جائیں۔
اگر ہم واقعی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی محبت کریں کہ آپﷺ ہم کو ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہو جائیں تو ہم کو آپﷺ کی شفاعت اور قرب نصیب ہوگا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم کو جنت میں اس کا ساتھ نصیب ہوگا، جس سے تم کو محبت ہے‘‘۔ اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سن کر صحابۂ کرام کو اتنی زیادہ خوشی ہوئی، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ (مرسلہ)