جنگ کی صورت قبول نہیں۔ بقلم مشرف عالم ذوقی

ہم باربار کیوں جنگ چاہتے ہیں؟ ہم کیو ں بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم ایک تھے‘ ایک ہی سرزمین کاحصہ۔ ملک کو تقسیم ہوئے بھی 71برس گذر چکے ہیں۔ چارجنگوں سے ہمیں کیاحاصل ہوا؟۔

بڑھتی ہوئی دہشت گردی صروف ہندو کو کمزور نہیں کرتی‘ اس کا اثر عالمی انسانی سماج پر بھی پڑتا ہے۔ جنگ اکثر ہمیں پہلی او ردوسری جنگگ عظیم اور ہونے والی خوفناک تباہی کی دنیامیں لے جاتی ہے۔دوسری جنگ عظیم9اگست1945کے دوران امریکہ نے جاپان کے ترقی یافتہ شہر ناگاساکی پر بم گرایا۔

اس سے قبل ہیروشیما میں ایٹمی حملے میں کم ازکم ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ خوفناک تباہی کے بعد ایک مدت تک جاپان میں اندھی‘ بہری نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔ زندہ بچنے والے بیشتر افراد ہولناک بیماریوں او رزخمو ں کا شکار ہوئے۔جاپانیوں نے آج بھی امرکہ کو معاف نہیں کیا۔

اور آج بھی 74برس بعد ایٹمی تباہی کی یہ داستان ہمیں خون کے آنسو رلاتی ہے۔ لیکن ہر بار ہم جوش وانتقال میں بربادی اور تباہی کی خوفناک داستان بھول جاتے ہیں۔ سیاست کے عالمی منظر نامے میں جنگ کی دستکیں اب زیادہ شدت سے سنائی دینے لگی ہیں۔

ہندوپاک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور نفرت کے درمیان عوام کی جانب سے انتقام لینے کا فرمان جاری ہوتا ہے۔ تلواریں کھینچ جاتی ہیں۔ہندوستانی فضائیہ کی یلغار کے جواب میں دھمکیوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔

سوال ہے کہ پلواماں حملہ کی ضرورت ہی کیوں پیش ائی؟ جنگیں حل نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے سیاست داں اور عوام کو اب یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہم ایک مہذب دنیا کو تباہی کی اندھی سرنگ میں جانے سے روکیں۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ ہماری نفرت او رتشدد کے گرم بازار سے دیگر بڑے ممالک فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

پلواماں میں جوکچھ ہوا ‘ نہیں ہونا چاہئے تھا۔یہ موقع توقف کرنے اور سونچنے کا ہے۔ یہ موقع دہشت گردی کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کا ہے۔ یہ موقع جنگ کا نہیں ہے۔

یہ جنگ کسی مسئلے ک احل نہیں ۔ ہم نے انتقام اور بدلے کی آگ میں سلگ کر کیاحاصل کرلیا۔ یا اب تک ہم جنگ جنگ کا کھیل کھیلتے ہوئے کیاحاصل کرسکے؟۔جنگ میں کون مارا جائے گا؟۔ ہمارے فوجی یا عوام۔

سوچنا یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے عوام دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور نہ پاکستانی عوام ‘ پھر یہ کیسی سیاست ہے جو مہذب دنیا میں اب تک دہشت گردوں پر روک نہیں لگاسکی۔

یہ کیسی سیاست ہے کہ ائے دن سرحدوں پر ہمارے اپنے گولیوں سے یاتو زخمی ہورہے ہیں یاہلاک۔ سوچنے کا مقام ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت کیوں ہیش آتی ہے؟۔قتل وغارت گری کی ا ستاریخ میں باربار ایک ہی نام ابھر کر سامنے آرہا ہے ۔

کوئی عمر‘ کوئی عادل ‘ کو ئی فرقان ۔ اب پہلے سے کہیں زیادہشدت کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا او رہم ہندوستانی تو دہشت گردوں کو دوگز زمین کا حصہ بھی نہیں دیتے۔ہماری تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہوچکا ہے ۔

ہم یہ بھی دیکھ چکے کہ نفرت سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے اوردہشت گردی کا عروج ملتارہا۔ پچھلے بیس سالوں کا حاصل یہ ہے کہ ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے۔کشمیر کا تنازع اپنی جگہ رہا۔حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور دہشت گردوں پر قابو پانے کی ہر کوشش ناکام رہی۔

ہماری اصل جنگ دہشت گردی سے ہے۔ عالمی سیاست کے نقشے پر بھی دہشت گردی اس حدتک داخل ہوچکی ہے کہ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی خطے سے دھواں اٹھتاہوا نظر آجاتا ہے۔کبھی ہم اپنوں کا سوگ مناتے ہیں ۔

کبھی کامیاب سرجیکل اسٹرائیک کے بعد فتح کا جشن مناتے ہیں۔ مرتاتوانسا ہے۔ اس نظیریے سے بھی سونچنے کی ضرورت ہے۔ جسی کی مانگ اجڑ گئی ‘ کلائیوں سونی ہوگئیں۔ناپاک سیاست کا حاصل کچھ نہیں۔ ضرورت ہے اس بنیاد کو ختم کرنے کی ‘ دہشت گردی جہا ں سے عروج پاتی ہے۔

یہ وقت پاکستان کے لئے بھی سونچنے کا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے اگر ختم کردیے گئے تھے تولشکر طیبہ ‘اور جیش محمد جیسی تنظیمیں اب تک زندہ کیو ں ہیں؟ جب تک ایسی ایک بھی تنظیم زندہ ہے ‘ تب تک امن ودوستی یکے راستے میںیہ دہشت گرد رکاوٹ پیدا کرتے رہیں گے۔