جنگ برصغیر کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی وجہہ بنے گی‘ وزرائے اعظم مودی اور خان کو امن کے لئے بات چیت کی شروعات کرنے چاہئے۔

پاکستان کے مشہور کرکٹر جاوید میاں داد نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ وقت ہاتھ ملانا ہے۔دونوں وزیراعظموں کو ملاقات کرنے اور صلح کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں کے متعلق سونچنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لئے کیا ماحول چھوڑ کر جارہے ہیں؟

ہندوستان او رپاکستان ایک ہی ماں کے دوبچے ہیں۔ اچھے لیڈران اپنے ممالک کی ہمیشہ بہتری کے لئے سونچتے ہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں۔ تعلقات ہموار کرنا ہمیشہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان نے آپس میں جنگیں لڑیں ہیں۔ کیا اس میں کسی کو عروج ملا ہے؟کیا کوئی جنگ کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد گارثابت ہوئی ہے؟ جو کچھ بھی ہوا وہ منفی ثابت ہوا ہے۔عالمی جنگوں نے زمین کو چھلنی کردیا ہے۔

لاکھوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ جنگ کبھی بھی مسلے کا حل نہیں رہا ہے۔ ہندوستان او رپاکستان اب پڑوسی ہیں‘ لہذا ماضی میں پیش ائے واقعات کو بھول جائیں۔ تنازعات کے باوجود مذکورہ دونوں ممالک جزوی وقت کے لئے بہتر تعلقات ہموار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

ہندوستانی او رپاکستانی‘ ہمارے ابا اجداد‘ ایک ساتھ رہاکرتے تھے۔ ہندوستان ایک بڑی مسلم آبادی کا گھر ہے‘ جو ہندوستانی شہری ہیں۔ پاکستان بھی میں بھی بے شمار ہندو اس کے شہری ہیں‘ جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے۔پڑوسیوں کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔

پڑوسی ایک ساتھ رہتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے۔لڑاکو جنگی جہازکے وینگ کمانڈر ابھینندن وردامان کی رہائی کے ذریعہ عمران خان نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔

میں نے سمجھتا کہ کوئی دوسرا پاکستانی وزیراعظم ایسا کرنے کے متعلق سونچتا۔پاکستان کی تحویل میں کسی ہندوستان پائلٹ کو محروس رکھنا کا کوئی جواز نہیں ہے۔یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ اپنے گھر واپس چلے گئے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی سفارتی دباؤ کا نتیجہ ہے۔

یہ صرف ایک دوسرے کو لڑائی سے دوررکھنے کا پیغام ہے۔ لڑائی کو ئی مثبت نہیں بلکہ منفی راستہ ہے۔ عمران خان کو پاکستانی فوج کا پالتو کہنا غلط ہے۔

ہمیں ہر کسی کو اس ملک کا حصہ سمجھنے کی ضرورت کی ۔ کسی بھی ملک میں انفرادی طور پر فیصلہ نہیں لئے جاتے۔ مگر ایک وزیراعظم تو وزیراعظم ہی ہوتا ہے۔ سب سے اونچا سب سے اوپر۔ کرکٹ میں جس طرح ایک شخص کو کپتان مقرر کیاجاتا ہے۔

ہر کھلاڑی کپتان کے اشارو ں پر کام کرتا ہے۔ ہمیں ٹیم کی شکل میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہا ں تک جونیرس کو بھی وہاں پر بولنے کا موقع دیاجاتا ہے۔

اعلی سطح پرہرکوئی بیٹھ کر مشترکہ طور پر فیصلہ لیتا ہے۔ سال1992کے ورلڈ کپ فائنل کے پیش نظر عمران خان نے کہاتھا وہ مذکورہ میاچ کے لئے نہ صر ف پاکستان بلکہ پورے برصغر کا کپتان ہوجاؤں گا۔مغرب کے لوگ ہمارے درمیان میں فرق نہیں کرتے۔ وہ ہمیں ایشیائی کہتے ہیں۔

منفی سونچ ہمارے اندر نہیںآنے دینا چاہئے۔ دونوں ممالک کے پاکس نیوکلیر طاقت ہے۔جنگ ہمیں تباہی کی طرف لے جائے گی۔

ہندوستان ایک بڑا ملک ہے۔ مگر اس کو یہ نہیں سونچنا چاہئے کہ پاکستان ایک کیک کا تکڑا ہے۔ پاکستان کے پاس بھی نیوکلیر پاؤر ہے۔ بڑوں کو تو چھوٹوں کو سنبھالنا چاہئے۔ ہمیں باہمی تبادلہ خیال کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے سے تجارت کرنا چاہئے۔ خط قبضہ پر شلنگ کا معاملہ نہیں یہاں نہیں لانا چاہئے۔

سابق میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔کھیل امن لاتا ہے۔یہ برجوں کی تعمیر کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے عام لوگوں کے درمیان ‘ یہ کوئی غلط نہیں ہے۔ ہندوستانی کرکٹرس پاکستان میں اب بھی مقبول ہیں۔ٹھیک اسی وقت جب پاکستان 2016میں ٹی 20ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے کلکتہ پہنچی تھی‘ انہو ں نے بھرے اسٹڈیم کے سامنے کھیل کا مظاہرہ کیا۔

مقامی لوگوں نے ان کی کرکٹ کو سراہا۔لہذا یہ وقت ہاتھ ملانے کا ہے۔ مذکورہ دونوں پرائم منسٹروں نریندر مودی اورعمران خان کو ملاقات او رصلح کرنا چاہئے۔اس کے لئے واگھا سرحد ایک بہترین مقام ہے