جناب کرشن چندر پر سرسری نظر

ڈاکٹر محمد ظہیر احمد
اردو کے بے حد مشہور ادیب اور افسانہ نگار جناب کرشن چندر پر چند صفحوں میں کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسے ٹھائیں مارتے ہوئے ایک بیکراں سمندر کو کوزے میں بند کرنا ۔ جس طرح ایک سمندر کو کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح کرشن چندر کی شخصیت ، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور ڈرامہ نگاری وغیرہ کے پہلوؤں کو مختصر طور پر سپرد قرطاس کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
کرشن چندر 23 نومبر 1914 ء کو وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ ( حال پاکستان) میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام ڈاکٹر گوری شنکر تھا ۔ جب کرشن چندر پانچ سال کے تھے تو انہیں مہنڈو (کشمیر کے پرائمری اسکول میں داخلہ دلوایا گیا ۔ انہوں نے وکٹوریہ جوبلی ہائی اسکول ( پونچھ) سے دسویں جماعت کامیاب کیا ۔ پھر اس کے بعد لاہور کے فارمن کرسچن کالج سے سائنس سے ایف ایس سی کیا اور 1934 ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد 1937 ء میں لا کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔
کرشن چندر کا رجحان بچپن سے ہی سیاست اور ادب کی طرف مائل تھا ، کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہوں نے مارکس لینن اور ریگلز کی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کیا اور سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوئے ۔ انہیں بچپن سے ہی اردو داستانوں اور ناولوں سے دلچسپی تھی ، انہوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’یرقان‘‘ لکھا جو ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا ۔ ان کا پہلا ناول ’’شکست‘‘ ہے جسے انہوں نے کشمیر میں رہ کر صرف اکیس دن میں لکھا تھا جو بے حد مقبول ہوا ۔
کرشن چندر نہ صرف ہندوستان میں مشہور اور ہردالعزیز ہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی لوگ انہیں جانتے ، پڑھتے اور پسند کرتے ہیں اور ان کی ناولیں اور افسانے پڑھتے ہیں۔ ان کے منتخب ناولوں کے تراجم انگریزی ، روسی ، ڈچ ، جیک ، رومانی ، پوسستان ، ہنگرین ، ناروی ، سلواک ، چینی ، سنہائی ، کوریائی اور جاپانی زبانوں میں ہوچکے ہیں ۔ وہ روس میں بے حد مقبول تھے ۔ یہ فخر سب سے پہلے کرشن چندر ہی کو حاصل ہوا کہ ان کی زندگی میں الہ آباد یونیورسٹی کے طالب علم احمد حسین نے ان پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ کرشن چندر کو عالمی امن کوششوں اور ہند سوویٹ دوستی بڑھانے کے سلسلہ میں نہرو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ بمبئی اور دلی میں ان کی 55 ویں (پچپن ویں) سالگرہ کے موقع پر جشن کرشن چندر ڈاکٹر ذاکر حسین اور شریمتی اندرا گاندھی کی صدارت میں دھوم دھام سے منایا گیا اور انہیں پدم بھوشن کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

کرشن چندر کے افسانوں کا آرٹ انفرادیت رکھتا ہے۔ افسانے اور ناول کی نوعیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’’افسانے میں بالعموم ایک نقطے کو ابھارا جاتا ہے یا اس میں زندگی کا ایک پہلو یا چند پہلو ہی پیش کئے جاتے ہیں لیکن ایک ناول نگار کو زیادہ ہمہ گیر ہوا چاہئے ۔ وہ نہ صرف اپنے کرداروں کی داخلی کیفیات سے واقف ہوتا ہے بلکہ وہ گرد و پیش کی خارجی دنیا سے اور اس کے عوامل سے بھی باخبر رہتا ہے ۔ سائنس کی تیز رفتار ترقی نے پرانے نظریات کو اتنی سرعت کے ساتھ فرسودہ اور ناکارہ کردیا ہے کہ ایک ناول نگار کو نہ صرف اپنے گرد و پیش کی خارجی دنیا اور اس کے داخلی اثرات کا احاطہ کرنا پڑتا ہے بلکہ عمل اور ردعمل کے پورے سلسلہ کو اپنے ذہن میں سمو لینے کے لئے دوسرے علوم کا بھی مطالعہ کرنا پڑتا ہے‘‘۔
کرشن چندر کے افسانوں کی تخلیق اردو ہی میں ہوتی تھی اور بعد میں مختلف منشی ان کا رسم الخط تبدیل کرتے تھے ۔ پھر افسانے ہندی ، مرا ٹھی ، گجراتی ، پنجابی میں شائع ہوتے تھے ۔ افسانوں کے موضوع وہ گرد و پیش کی دنیا سے لیتے تھے ۔ ان کا مشاہدہ ذاتی ہوتا تھا ا ور کبھی کبھی کتابی بھی افسانوں میں جن کرداروں کو پیش کرتے تھے ، وہ ہمارے اطراف ہی موجود رہتے تھے ۔ ان کے پاس منظر نگاری کی بہت اہمیت تھی، منظر نگاری کا ایک نمونہ پیش ہے۔
’’میں نے آسماں کی طرف دیکھا ، دور کہیں کہیں تارے جھلملا رہے تھے اور چنار کی پھیلی ہوئی ٹہنیوں کے درمیان بیچارہ ماہ نو بھی کسی دوشیزہ کے ٹوٹے ہوئے کنگن کی طرح لٹک کر رہ گیا تھا ۔ ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے آرہے تھے اور ان کے دوش پر شکارے چلاتے ہوئے پانجیوں کی پر کیف صدائیں لرز رہی تھیں‘‘۔ (بند والی ۔ نظارے)
کرشن چندر اپنے افسانوں اور ناولوں میں سرمایہ پرستوں کے خلاف بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی تخلیقات جاگیردارانہ ذہنیت کے خلاف ہیں ۔ ان کے افسانوں میں لوٹ کھسوٹ ، ناانصافی اور سرما یہ پرستوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے ۔ اس طرز کے دو نمونے پیش ہیں ۔

’’تم جانتے ہو مجھے طوائفیت سے ، پرانے ساختی نظام سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو طوائفیت کو مٹاکر عورت اور مرد دونوں کو برابر کا درجہ دینا چاہتا ہوں ۔ میں تو ایک ایسا سماج چاہتا ہوں جہاں کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب سب برابر ہوں۔ مساوات ، مکمل مساوات کا حامی ہوں ۔ انور بھائی تم میرے قول اور فعل میں کبھی تضاد نہ پاؤگے ۔ یہ فلسفۂ زندگی میری حیات کا جزو عظیم ہے ‘‘۔ (ہم سب غلیظ ہیں۔ نغمے کی موت)
وہ زمانہ میرے بچپن کا تھا لیکن اب بڑا ہوجانے پر مجھے مردوں پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔ مردے خوش تھے کہ وہ مرگئے لیکن حیرت ان زندوں پر ضرور ہوتی ہے جو شب و روز ان واقعات و حالات کا غم سہتے ہیں ۔ خود اپنی آنکھوں سے اپنی زندگی کے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کوئی احتجاج کئے بغیر سماج کے مردہ خانے میں پڑ ے پڑے سڑ جاتے ہیں۔ کرشن چندر قدرت کے بیان کو بھی خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں انسان اپنی بدنصیبی کا آپ ذمہ دار اور اپنی خوشی کا آپ دشمن ہے ۔ ذیل کے اقتباس سے یہ ظاہر ہے ۔ اگر ہم غریبی کے اس جہنمی گھروندوں کو نہیں مٹاسکتے تو آؤ اس وادی کو ایک بار پھر ایک بڑی جھیل بنادیں جس میں گھروندے غرق ہوجائیں تاکہ سورج کی پہلی کرن جاگے تو کہہ اٹھے ۔ شکر ہے ابھی انسان پیدا نہیں ہوا ‘‘۔ (جھیل سے پہلے، جھیل کے بعد)
کرشن چندر کے افسانوں کا سیاست سے بھی تعلق ہوتا تھا، جیسے کہ ذیل کے نمونوں سے ظاہر ہوتا ہے۔

’’انسان ابھی انسان نہیں ۔ یہ جنگ جو آزادی ، تہذیب اور انصاف کے لئے لڑی جارہی ہے ، غالباً آخری نہ ہوگی ۔ شائد آخری جنگ اس ظالم جذبے کے خلاف ہوگی جو انسانی محبت کے سر چشمے پر سل رکھ کر زندگی کے اس منبع کو ہمیشہ کیلئے خشک کردینا چاہتا ہے ‘‘۔ (حسن )
’’انسانوں کو یہ سپنوں کی دنیا کیوں پیاری ہے اور کیوں وہ ان سپنوں کو حقیقت نہیں بنالیتا ۔ سورج ، پانی ، چاند ، ہوا کی طرح اگر زمین اور اس کی پیاری پیداوار بھی سب انسانوں میں مشترک ہوئے تو ہر گھر ان سندر سپنوں کا جگمگاتا ہوا شیش محل بن جائے ۔ پھر انسان ایسا کیوں نہیں کرتا ۔ وہ کیوں غاصب ہے ۔ اشتراکی کیوں نہیں ، کیا اس میں اتنی سی عقل بھی نہیں کہ اس سیدھی سادی بات کو سمجھ لے‘‘۔
کرشن چندر کی کہانیوں کا انسان جبلی طور پر جمال پرست ہے ۔ ذیل کا اقتباس اسے ظاہر کرتا ہے ۔

’’دھیرے دھیرے ریکارڈ بجنے لگا ، وہ ایک چھوٹا سا میٹھا سا گیت تھا ، دل کا ایک چھوٹا سا درد لئے ہوئے رومان کی ایک ہلکی سی کسک لئے ہوئے ، محبت کے جگنو کی ایک ننھی سی روشنی لئے ہوئے اور وہ دھیرے دھیرے میرے دل میں اترنے لگا ۔ جیسے زلف رخسار پر اترتی ہے ۔ جیسے چاندنی ساحل پر اترتی ہے ۔ جیسے سیپ سمندر کی تہہ میں اترتی ہے اور منہ کھولے محبت کے پہلے موتی کا انتظار کرتی ہے ‘‘۔ (گیت اور میں)
کرشن چندر نہ صرف چیزوں کو دیکھتے تھے بلکہ ان کی گہرائی میں بھی اترنے کی کوشش کرتے تھے ۔ مثلاً انہوں نے ذ یل کے اقتباس میں سبز رنگ کے بارے میں لکھا تھا۔
’’غالیچہ کا رنگ سبز تھا ۔ ایسا سبز جیسا گہرے سمندر کا ہوتا ہے ۔ ایسا سبز جیسا موسم بہار کا ہوتا ہے۔ یہ ایک خطرناک رنگ ہے ۔ اسے دیکھ کرشارک مچھلیوں کی یاد آتی ہے اور ڈوبتے ہوئے جہازوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے ۔ اچھلتی ہوئی طوفانی دیوہیکل لہروںکی گونج اور گرج رعشہ پیدا کردیتی ہے ۔ (غالیچہ)
کرشن چندر کے افسانوں کا مجموعہ جس میں پشاور اکسپریس وغیرہ افسانے شامل ہیں۔ انسانوں کوا یک دوسرے سے قریب لانے میں ایک بہترین کوشش ہے اور انسانوں کو یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ وہ ہندو یا مسلمان ہونے کے علاوہ انسان بھی ہیں۔ اس سلسلہ میں بچوں کیلئے لکھا ہوا کرشن چندر کا ناول الٹا درخت بھی ہے جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان خواہ کالا ہو یا گورا اس کا خون سرخ ہی ہوتا ہے !!
کرشن چندر نے بے شمار افسانے اور کئی ناول لکھے ہیں۔ افسانوں اور ناولوں کے علاوہ انہوں نے کئی ڈرامے اور رپورتاژ بھی لکھے ہیں ۔ ان کے لکھے ہوئے مشہور افسانوی مجموعے نغمے کی موت، ان داتا ، اجنتا سے آگے ، سمندر دور ہے ، طلسم خیال، تین غنڈے ، ہم وحشی ہیں، دل کسی کا دوست نہیں ہیں۔ ان کی مشہور ناولیں شکست ، دل کی وادیاں سوگئیں، باون پتے ، ایک گدھے کی سر گزشت ، سڑک واپس جاتی ہے ، برف کے پھول ، گنگا بہے نہ رات ، کاغذ کا ناو، پانچ لوفر ، ایک وائلن سمندر کے کنارے ، درد کی نہر ، ہیں۔
کرشن چندر کو نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے ایشیا کا عظیم افسانہ نگار اور ادیب مانا جاتا ہے اور قابل فخریات یہ ہے کہ وہ اردو کے افسانہ نگار اور ادیب تھے اور یہ اردو کی عظمت کا زندہ ثبوت ہے ۔ اور یہ آسمان ادب کا سورج ممبئی میں 8 مارچ 1977 کو ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ !!