جموں وکشمیر میں مخلوط سرکاری یک لخت ختم

بی جے پی نے پی ڈی پی سے حمایت واپس لی‘ ریاست میں گورنر راج کا نفاذ یقینی‘ مرکزی سرکارکی جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ مخلوط سرکار کو لے ڈوبا‘ نیشنل کانفریس او رکانگریس کا حکومت سازی سے انکار
سری نگر۔ جموں کشمیر میں بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد توڑدیا۔

اس کے ساتھ ہی محبوبہ مفتی کی سربراہی میں قائم مخلوط سرکار بھی ختم ہوگئی۔

اگرچہ ابھی تک ریاست میں گورر راج کے نفاذ کا اعلان نہیں کیاگیا ہے تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی جانب سے حکومت سازی میں عدم دلچسپی کے اظہار کی وجہہ سے ریاست میں گورنر راج کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

نئی دہلی کی جانب سے جموں وکشمیر میں’جنگ بندی ‘ ختم کرنے کے حالیہ فیصلہ ریاستی حکومت گرنے کا بنیادی سبب بناکیونکہ وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور ان کی جماعت پی ڈی پی جنگ بندی کو جاری رکھنے کے حق میں تھی لیکن مرکز نے اس کے برعکس فیصلہ کیا۔

ریاست کے بی جے پی لیڈران نے مرکز کے فیصلے کو سراہا۔ اس پر دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے اوربالآخر پیر کی رات نئی دلی میں امیت شاہ کی سربراہ میں منعقدہ بی جے پی لیڈروں کی میٹنگ میں پی ڈی پی کے ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیاگیا ۔

آج دوپہر بی جے پی نے ریاستی گورنر این این ووہرا کو تحریری طور پر آگاہ کیاکہ وہ حکومت کی حمایت واپس لیناچاہتی ہے۔

اس کے کچھ ہی دیر بعد محبوبہ مفتی نے بھی گورنر کے پاس اپنا استعفیٰ پیش کیا۔بی جے پی کے جنرل سکریٹری انچارج رام مادھو نے میٹنگ کے بعد یہاں بی جے پی دفتر میں ہنگامی طور پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے حمایت واپس لینے کا اعلان کیا۔

انہو ں نے کہاکہ محبوبہ مفتی صوبہ کے حالات نہیں سنبھال سکیں۔

انہوں نے کہاکہ رمضان کے دوران حکومت نے امن بحال کرنے کے لئے صوبہ میں جنگ بندی کی تھی لیکن نہ تودہشت گردوں اور نہ حریت سے اچھا جواب ملا۔

انہوں نے الزام عائد کیاکہ بی جے پی نے تینوں حلقوں جموں‘ لداخ اور کشمیر کی مساوی ترقی کی وکشش کی لیکن مفتی حکومت نے جموں سے امتیاز ی سلوک کیا۔

بی جے پی نے کہاکہ صوبہ میں ایک بڑے صحافی کا قتل ہوتا ہے لیکن حکومت خامو ش رہتی ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ جمو ں وکشمیر میں دہشت گردی کافی بڑھ گئی ہے۔

حالات کافی خراب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ پی ڈی پی نے بی جے پی او رمرکز کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جس کی وجہہ سے حمایت واپس لی جارہی ہے۔

دوسری جانب کانگریس جنرل سکریٹری غلام نبی آزاد نے کہاکہ پی ڈی پی سے ہاتھ ملانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہاکہ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بناکر بڑی غلطی کی تھی۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ نہ حمایت کے لئے کسی نے مجھ سے رابطہ کیااو رنہ میں کسی سے رابطہ کرنا جارہاہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ صوبہ میں گورنر رول نافذ ہواور میںیقین دلاتا ہوں کہ گورنر کی پوری مدد کرونگا ۔

تاہم مطالبہ یہ ہے کہ صوبہ میں بہت تک گورنر رول نہیں رہنا چاہئے بلکہ جلد از جلد انتخابات کرائے جانے چاہئے تاکہ عوام کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا موقع ملے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال2014کے انتخابات میں پی ڈی پی کو 28اور بی جے پی کو 25سیٹیں ملی تھیں۔

دونوں پارٹیو ں نے کئی ہفتوں کی بات چیت کے دوران ’’ ایجنڈ ا آف الائنس ‘‘ مرتب کرنے کے بعد یکم مارچ 2015کو مفتی محمد سعید کی قیادت میں ریاست میں مشترکہ حکومت قائم کی تھی۔

متضاد بلکہ متصادم نظریات کے حامل دونوں جماعتوں پی ڈی پی اور بی جے پی کی یہ حکومت اتحادیوں کے درمیان سخت ترین اختلافات کے باوجود ساڑھے تین سال سے زائد عرصے تک قائم رہنے کے بعد بالآخر ختم ہوگئی۔

بی جے پی نے جب ریاستی گورنر کو تحریری طور پر آگاہ کیاکہ وہ پی ڈی پی کے ساتھ چھوڑ کر حکومت ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے کچھ منٹوں بعد حواس باختہ محبوبہ مفتی راج بھون پہنچیں اور گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔

اس کے بعد محبوبہ مفتی نے اپنی پارٹی پی ڈی پی کے عہدیداروں کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا