جرم نفرت کا سفر محبت۔ ہرش مندر۔

اس سال کی شروعات ہم نے بنگال میں کاروان محبت نام کے سفر سے کی ۔ملک کے کچھ حصہ نفرت بھری فضاء کے سبب آلودہ ہیں‘ لہذا ہم نے کم سے کم ہر ماہ ایک ریاست کا اپنی کاروان کے ذریعہ سفر کرنے فیصلہ کیاہے‘ ہم وہاں جاکر نفرت کاشکار متاثرین کے گھر پہنچ کر ان سے ملاقات کررہے ہیں۔

ہم نے سال2017میں اسی سفر کے دوران سات ریاستوں کا دورہ کیا‘ ہم نے متاثرہ خاندانوں کو بھروسہ دلایا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں‘ اور یہ کے ان کے ساتھ ملک کی بڑا حصہ ہے جو ان کے غم میں برابر کاشریک ہے۔ ہم ان متاثرین کی کہانیں ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائیں گے‘ نہ صرف ہمدردی کے لئے ‘ مگر اپنے ضمیر کی آواز پر ۔

کلکتہ کے کاروان میں کئی ایک سینئر اور نوجوان صحافیوں ‘مصنفین‘ وکلا ‘ ایک فوٹوگرافر‘ایک صنعت کاراور ایک کمرشیل فلم میکر‘ محققین‘ طلبہ ‘ سماجی کارکن شامل ہوئے۔ میرے لئے یہ موضوع اور نہایت جذباتی تھا کہ اس سال کا کاروان میں نے افرازل خان کے گھر کے دورے سے کیا‘جو کہ ایک مزدور تھے اور پچھلے سال بے رحمی سے اس کا قتل کردیاگیاتھا‘ مجھے ان دنوں کی یاد آگئی جب افرازل کو بے رحمی کے ساتھ قتل اور جلادیاگیا تھا ‘ اور اس افسوسناک واقعہ کا ڈسمبر6سال2017 کو روز راجستھان کے راجسمندمیں فلمبندی بھی کی گئی۔

ہم نے دیکھا کہ راجسمند ضلع میں کے علاوہ راجستھان کے مختلف حصوں میں مالدہ سے تعلق رکھنے والے مزدور کام کررہے ہیں‘ جس میں بنگالی ہنر مند مسلم ورکرس تعمیری ‘ اور سڑکوں عمارتوں کی تعمیر کاکام کررہے ہیں۔ جو دس ماہ تک اپنے گھر والوں سے دور رہ کر سخت محنت کش مزدور کرتے ہوئے تنہا زندگی گذار رہے ہیں‘ تاکہ اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرسکیں اور اپنے بچوں کو بہتر تعلیم سے ہمکنار کیاجاسکے۔

افرازل کے قتل کے اندرون چار دن زیادہ تر مزدور خوف کے عالم میں اپنے آبائے گھر کو واپس لوٹ گئے۔ ہم نے راجسمند میں افرازل کے داماد سے ملاقات کی جس کو پولیس نے تحقیقات کرنے والوں کی مدد کے لئے وہاں پر روک لیا۔اس کے بعد ہی ہم نے فیصلہ کیا کہ افرازل کے گھر والوں سے مالدہ میں ملاقات کریں گے۔افرازل کا قتل ہونے کے محض چار دنوں میں زیادہ تر لیبرخوف کے عالم میں اپنے گھر واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔

ہم نے راجسمند میں افرازل کے داما د سے ملاقا ت جس کو پولیس نے تحقیقاتی افسروں سے تعاون کے لئے جانے سے منع کردیاتھا۔ اس کے بعد ہی ہم نے فیصلے لیا کہ ہم مالدہ پہنچ کر افرزال کے گھر والو ں سے ملاقات کریں گے۔ہم مالدہ میں تو تنگ فصلوں پر مشتمل گالیوں سے گذرتے ہوئے سیدپور گاؤں پہنچے جہاں پر افرازل کا مکان ہے۔کڑی محنت سے سیچنے پھولوں کے ساتھ گھر والے اینٹوں کے ایک پکے مکان میں رہتے ہیں۔ جب ہم اندر گئے ‘ تو ہم ان کی بیوہ گلبہار بی بی سے ‘تین لڑکیوں اور ایک لڑکے سے ملاقات کی ۔ہم نے متوفی افرازل کے گھر والوں کو بتایا کہ ہم کون ہیں۔

ان کا بڑا داماد مشرف قتل کے بعد راجسمند میں ہماری جس سے ملاقات ہوئی تھی نے ہمیں پہچان لیا۔افرازل کی بیوہ بکھری ہوئی دیکھائی دے رہیں تھیں۔وہ کچھ نہیں چاہتے سوائے اس کے کہ جس شخص نے بے رحمی کے ساتھ ان کے شوہر کاقتل کیاہے اس کو پھانسی کی سزاء کے‘ اس کے لئے قاتل کا مذہب اس کی وجہہ نہیں ہے

۔بیٹی نے اپنے اس باپ کو یاد کیاجس نے اپنی ساری زندگی اولاد کے لئے وقف کردی۔ اس نے اپنی تمام بیٹیوں کو تعلیم دی او ردوبڑی بیٹیوں کی شادی کی ۔ سب سے کم عمر بیٹی حبیبہ خاتون ہے جس کی عمر16سال کی ہے اور وہ دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اپنی تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھے۔

اس کے والد کے بے رحمی سے قتل کے بعد ایک خانگی اقامتی اسکول نے اس کو داخلہ دیاہے۔افرازل اپنے قتل سے قبل عیدالاضحی کو گھر آیاتھا۔ او رحسب روایت اس دن 8:30اپنی بیوی کو فون کال کیا تھا جس روز افرازل کا قتل ہوا ۔

اس نے اپنی چاہتی سب سے چھوٹی بیٹی کے متعلق پوچھا کیا وہ اسکول گئی ہے؟پھر بیوی نے پوچھا کہ کیا اس نے کھانا کھایا ہے۔ اس نے کہاکہ وہ اس ہفتے کے آخر میں ان لوگوں کودیکھنے کے لئے گاؤں ائے گا۔یہ دونوں کی آخری بات چیت تھی۔متوفی افرازل کی بڑی بیٹی جیوتسانارا بیگم نے اسبات کو دوہراتے ہوئے رو پڑی کہ’’ میرے والد بہت اچھے انسان تھے۔ ہمیں بھائی نہیں ہیں۔ اب ہمارے خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ قاتل کو پھانسی پر لٹکادیاجائے‘‘۔میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سخت سے سخت سزا ملنا چاہئے ( اس کے علاوہ میں مانتا ہوں کہ موت کی سزا کسی کو نہیں دینا چاہئے)۔

افرازل کے گھر کے باہر بڑی تعداد میں لو گ جمع تھے۔ بیشتر لوگوں نے کہاکہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوردراز مقامات پر مزدوری کرنے والے لیبر ہیں۔انہوں نے کہاکہ ’’ ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور ہمارے پاس زمین بھی نہیں ہے۔ زراعت سے کچھ حاصل نہیں ہے او رنہ یہاں پر صنعتیں ہیں۔ ہم اگر ہندوستان کے کونے کونے میں کام کی تلاش کے لئے نہیں جائیں گے تو ہمارا گذار نہیں ہوسکے گا‘‘۔ وہ لوگ ہر ماہ چھ سات ہزار روپئے جمع کرکے گھر بھیجتے ہیں۔راجستھان میں افرازل کے قتل کے بعد کئی لوگ خوف کے عالم میں گھر واپس لوٹ گئے ہیں اور اپنے کام پر واپس جانے سے گھبرارہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں انہیں راجستھان کے اندر اس قسم کے تشدد کا کبھی سامنا نہیں ہوا‘ ہم خوف کے ماحول میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کے کب اورکون کہاں سے ہم پر حملہ کردے گا۔مگر انہیں معلوم ہے کہ کو کسی بھی طرح اپنی زندگی کومعمول پر لادیں گے‘ ورنہ ان کے گھر والے بھوکے مر جائیں گے اور نہ ہی وہ اپنے بچو ں کوتعلیم دے سکیں گے او رنہ ان کی شادی کرسکیں گے۔’ اگر راجستھان میں نہیں تو ‘ ہم ہندوستان کے کسی اور حصہ میں کام کی تلاش میں جائیں گے‘‘۔

چیف منسٹر ممتا بنرجی نے حالیہ دنوں میں ایسے ورکرس کے لئے خیرمقدمی او راہم اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت ان تمام مزدور کو ہرسال دوسودنوں کا کام تمام مزدور وں کو ان کے گاؤں کے قریب میں فراہم کیاجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سارے ملک میں دوردراز مقامات پر جاکر مزدوری کرنے والے لیبروں کے لئے ایک مثال بن جائے گی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک سوملین لیبرہرسال اپنا آبائی مقام چھوڑ کردوسری مقام پر مزدوری کرنے کے لئے جاتے ہیں۔