جانچ ایجنسیاں بتائیں منان بشیر وانی کہاں ہے؟۔

اے یم یو کے طلبہ یونین نے سراغ لگانے پر اٹھائے سوال‘ کہا‘ اگر جلد انکشاف نہیں ہوا تو طلبہ تحریک چلانے پر مجبورہوں گے۔
علی گڑھ۔یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ جیالوجی سے معطل ریسرچ اسکالر منان بشیر وانی کی ابھی تک حالت صاف نہ ہونے پر طلبہ یونین نے فکرمندی کا اظہار کیا ۔ اتوار کو طلبہ یونین کی طرف سے یونین ہال میں بلائی گئی اجلاس میں عہدیداروں نے مانگ کی کہ جانچ ایجنسیاں بتائیں کہ آخر منان کہاں ہے؟۔

اعلان بھی کیاکہ اگر جلد انکشاف نہیں ہوا تو طلبہ تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے۔جانچ کے انکشاف کے لئے یونین کی طرف سے وزارت داخلہ کے علاوہ یوپی کے وزیراعلی او رجموں و کشمیر کی وزیراعلی کو بھی خط لکھا گیا ہے۔طلبہ یونین کے صدر مشکور احمد عثمانی نے کہاکہ منا ن کو غائب ہوئے دوہفتوں سے زیادہ ہوگئے ابھی تک اس کی کوئی خبر یاسراغ کسی بھی جانچ ایجنسی کو نہیں ملی ہے۔ میڈیا میں جو بھی رپورٹ منان کے دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہونے کی ائی تھی اس کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔

اس لئے وہ آج بھی ہمارے اترپردیش او رجموں وکشمیر کی وزیراعلی کو خط بھیج کر مانگ کرے گا کہ منان کے معاملے کا اب تک ہوئی جانچ کا انکشاف کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ سرمائی تعطیل ختم ہوچکی ہے او رطلبہ اپنے گھر وں سے لوٹ کر کیمپس میں آرہے ہیں۔

جلد ہی طلبہ یونین سینئر طلبہ کے ساتھ رہائشی ہالوں کو دورہ کرکے طلبہ کو منان وانی کی گمشدگی کے بارے میں تفصیل بتائے گی۔ طلبہ یونین کے نائب صدر سجاد سبحان راتھر نے کہاکہ اگر جلد ہی منان وانی کے بارے میں ٹھوس سراغ نہیں ملاتو یونین تحریک چلائے گی۔ انہو ں نے تمام طلبہ سے متحد رہ کر اس بحران سے نمٹنے کی اپیل کی۔

متفقہ طور پر یہ طئے کیاگیا کہ طلبہ یونین متعلقہ افسران سے منان کے سلسلے میں ہوئی جانچ کی تفصیلات حاصل کرے گی او راس کے بعد اگلے ہفتے طلبہ کی میٹنگ کی جائے گی جس میں اس مسئلے پر آگے کی حکمت عملی طئے کی جائے گی۔طلبہ یونین کے سکریٹری محمد فہد نے طلبہ کو یقین دلایا کہ جانچ کے نام پر کسی کا استحصال نہیں ہونے دیاجائے گا۔

جانچ کے دائرے میں کوئی بھی طالب علم آتا ہے تو اس سے پوچھ گچھ پراکٹر دفتر کے ذریعہ ہی کرائی جائے گی۔بے وجہہ کسی کو پریشان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ طلبہ نے بھی تک بیت تحمل سے جانچ میں تعاون کیاہے او رآگے بھی کرتے رہیں گے۔ طالب علم رہنما ابوبکر نے کہاکہ گذشتہ دوہفتوں سے اے ایم یو کے طلبہ اس مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔