جامعہ مسجدکی گنبد میں دراڑ‘ وزیر اعظم کی مدد درکار۔جنگی خطوط پر مسجد کی مرمت ضروری ہوگیا ہے

ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعددس سال قبل 17ویں صدی میں تعمیر مسجد کی اے ایس ائی نے مرمت کی تھی‘ مسجد کے نگران کار ‘ وقف بورڈ کے پاس مسجد کی مرمت کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔مسجد کی تعمیر 1648میں شہاجہاں آباد کی تکمیل کے بعد شروع ہوئی
نئی دہلی۔مسجد کے نگران کار کے مطابق 361سال قدیم پرانے دہلی کی مسجدکے مطابق عالیشان جامعہ مسجد کے باہری حصہ کی عاجلانہ مرمت درکار ہے۔ شاہجہاں باد سٹی کے قلب میں واقعہ اس تاریخی کی مذکور ہ مسجد کی چھت پر بہتے ہوئے پانی کی وجہہ سے سنگین خطرہ لاحق ہوگیا ہے‘ جس کی وجہہ سے عمارت کے ڈھانچے پر اثر پڑرہا ہے اور مسجد کی مرکزی گنبد پرکو نقصان ہوا ہے۔ جامعہ مسجد دہلی کے شاہی امام سید احمد بخاری نے کہاکہ انہوں نے پچھلے سال وزیراعظم نریندر مودی کو ایک مکتوب بھی لکھاتھاتاکہ مسجد کی مرمت اور اے ایس ائی کو جنگی خطوط پر نگہداشت کے کاموں کی تکمیل کو یقینی بنایاجاسکے۔

Image Courtesy
Hindustan Times

بخاری نے ہندوستان ٹائمز سے کہاکہ’’میں نے صاف طور پر دونوں یعنی پی ایم او اور اے ایس ائی سے یہ کہا ہے کہ نگہداشت کی کمی کے سبب مستقل نقصان کا سامنا ہورہا ہے۔ بالخصوص امام کا مقام اور تین گنبدوں کی فوری مرمت ضروری ہے‘‘۔ پی ایم او دفتر سے اس پر فوری تبصرہ نہیں ملا ہے۔اے ایس ائی ترجمان ڈی ایم ڈمری نے کہاکہ مسجد سے متعلق فلور اور دیگر مرمت کے کام پائپ لائن میں تھا۔

Image Courtesy
Hindustan Times

تاہم انہوں نے کہاکہ اے ایس ائی گنبد اور دیواروں میں نقصان سے واقف نہیں ہے۔ڈمری نے کہاکہ ’’ فلورنگ کی مرمت کے لئے ایک تخمینہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ٹنڈر کی تیار کی جارہی ہے ۔ جامعہ مسجد میں اے ایس ائی بہت جلد اپنا کام شرو ع کردیگا۔ جبکہ مسجد اے ایس ائی کی زیر تحویل منومنٹ نہیں ہے‘ مستقبل طور پر اس کی نگرانی اور مرمت ہماری ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔مسجد کے انتظام اور تحفظ کی ذمہ داری دہلی وقف بورڈ کی ہے۔

نام پوشید ہ رکھنے کی شرط پر بورڈ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’’ ہمارے پاس مسجد کی مرمت کے لئے درکار فنڈز ندارد ہیں اس لئے ہمیں اس پراجکٹ کے لئے باہر سے مدد لینی پڑتی ہے‘‘۔ بخاری نے کہاکہ د س سال قبل اے ایس ائی نے اسی طرح کی ایک درخواست کے بعد بڑے پیمانے پر تعمیر نو کے کام انجام دئے تھے۔بخاری نے کہاکہ ’’ اے ایس ائی کے حوالے اس کام کو1956میں کیاگیا ۔

Image Courtesy
Hindustan Times

اس سے قبل مسجد کی عمارت اور ایک مینار کوبارش اور بجلی کی وجہہ سے ایک نقصان ہوا۔اس وقت بھی وقف بورڈ کے پاس درکار فنڈز موجود نہیں تھے ‘ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اے ایس ائی کو اس سے باندھا‘ جوحسب ضرورت تب سے مرمت کاکام کررہے ہیں‘‘۔مسجد کے نگران کاروں کے مطابق عمارت کے بڑے نماز کے حال پر واقعہ مرکز گنبد زیادہ نقصان کاشکار ہوا ہے جس پر پانی کے سفید دھبے صاف طور پر دیکھائی دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ مشترکہ دیواریں ‘ میناریں‘ چھوٹی پیاز نما گنبدمیں دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں بارش کے پانی عدم صفائی سے عمارت بھی خصتہ حالی کا شکار ہوئی ہے۔ مسجد کے اوپر نصب چاروں چھتری ( گنبد نما پویلین) بھی خصتہ حال ہے‘ جگہ جگہ سے ماربل اکھاڑ گیا ہے جس کی وجہہ سے مزید نقصان کا خدشہ ہے۔

Image Courtesy
Hindustan Times

سترویں صدی کی اس مسجد کا اصل نما مسجد جہاں نماں ہے جو ہندوستان کی سب سے بڑی مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور اس کو مغل حکمراں شاہجہا ں نے تعمیر کیاتھا۔ سال1648میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور چھ سال کہ عرصہ میں اسوقت کے دس لاکھ روپئے کی لاگت سے اس کو تعمیرکیاگیا ہے۔